میجک مین
تحریر: (مسرور احمد)
افلاطون کی غار کے قیدیوں کی مثال آج بھی متعلقہ ہے جو کہ انسانی ذہن پر پڑنے والے فکری، سیاسی اور سماجی غلامی کے اثرات پر روشنی ڈالتی ہے۔یہ تمثیل قدیم یونانی فلاسفر افلاطون نے اپنی کتاب ریپبلک میں پیش کی تھی۔ اس تمثیل میں افلاطون نے ایک ایسے غار کا ذکر کیا ہے جس میں کچھ لوگ پیدائش کے وقت سے قید ہیں، جن کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔ان کے سر بھی اس انداز سے بندھے ہیں کہ وہ مسلسل صرف غار کی اندرونی دیوار کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کے پیچھے غار کے اندر ایک آگ کا الاؤ روشن ہے اور اس الاؤ کے پیچھے غار کا دہانہ ہے۔اس آگ کے الاؤ اور ان بندھے ہوئے انسانوں کے درمیان کچھ لوگ ہاتھوں میں مختلف اشیاء اٹھائے گزرتے ہیں اور ان کے سائے غار کی دیوار پر پڑتے ہیں جنھیں وہ قیدی اپنی پیدائش کے وقت سے دیکھ رہے ہیں۔اپنی مخصوص کیفیت کی وجہ سے ان قیدیوں نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ یہ سائے واحد حقیقت ہیں اور یہی واحد سچائی ہے کیونکہ انھوں نے کبھی غار کے باہر موجود حقیقی زندگی نہیں دیکھی۔پھر ایک دن ان کا ایک ساتھی کسی طرح خود کو زنجیروں سے آزاد کرا لیتا ہے۔ وہ تجسس کے عالم میں غار سے باہر نکلتا ہے اور غار سے باہر موجود حقائق کا مشاہدہ کرتا ہے اور اصل سچائیوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔وہ سوچتا ہے کہ اب یہ اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے باقی ساتھیوں کو زنجیروں سے آزاد کرائے اور انھیں قائل کرے کہ وہ ساری زندگی بے وقوف بنائے گئے ہیں اور زندگی کی اصل سچائیاں تو کچھ اور ہیں جو غار کے باہر موجود ہیں۔جب وہ غار کے اندر جاتا ہے اور انھیں سچائی کے متعلق قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قیدی اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس کا یقین کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ سایوں کی جعلی حقیقت اور غلامی کے اس قدر عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دوست کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے اس آزاد ساتھی کو دیوانہ و مجنون قرار دیتے ہوئے تبدیلی کے عمل کا حصہ بننے سے انکار کر دیتے ہیں۔افلاطون کی یہ تمثیل جدید ذمانے میں فکری غلامی کے زیر سایہ نشوونما پانے والے سماجی رویوں کی نہائیت عمدہ عکاسی کرتی ہے۔آج بھی عوام کی اکثریت فکری آزادی،آزادانہ سوچ اور سماجی و سیاسی شعور سے محروم ہیں۔ لوگوں کی اکثریت صرف ان باتوں پر یقین رکھتی ہے جسے اجارہ دار طبقے نے نظام تعلیم، میڈیااور دیگر سماجی اداروں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں ڈال رکھا ہے۔ آج بھی لوگوں کی اکثریت غار کے ان قیدیوں کی مانند ہے جو غوروفکر اور آزادانہ سوچ کا استعمال کر کے اصل سچائی تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔وہ اس مصنوعی سچائی،فرسودہ رواج اور سماجی رسوم کے اس حد تک عادی ہو چکے ہیں کہ وہ ان زنجیروں کو محسوس تک نہیں کرپاتے جنھوں نے ان کے ذہنوں کو گھونٹ رکھا ہے۔ غار کا آزاد ہونے والا قیدی، آج کے پر تجسس،با شعور اور تنقیدی نقطہ نظر رکھنے والے شخص کی نمائندگی کرتا ہے جو جب موجودہ رسم و رواج پر سوال اٹھاتا ہے اور لوگوں کو سچ سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہمارا معاشرہ اسے جھڑک کر خاموش کرا دیتا ہے۔ہمارے معاشرے کے لوگ واقعی افلاطون کے تمثیلی غار میں رہ رہے ہیں۔ ان کے ذہن سوچنے اور سوال کرنے کی صلاحیت کھوچکے ہیں اور وہ نظام کی مسلط کردہ ذہنی غلامی کی تقدیر کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں فرعونوں کو للکارنے کیلئے قدرت اسی قوم سے ہی کسی باصلاحیت اور کرشماتی شخصیت رکھنے والے میجک مین کو موسیٰ کا کردار ادا کرنے کیلئے بھیجتی ہے جو تمام خطرات سے بے نیاز ہو کر لوگوں کو غلامی سے نجات دلانے کیلئے کوشش کرتا ہے اور اس کے پھینکے ہوئے پتھر سے بالآخر جوہڑ میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور تبدیلی کے عمل کا ارتقائی انداز میں آغاز ہوتا ہے۔ مرنا تو ہر کسی نے ہے لیکن وہ لوگ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ جنھیں قدرت تاریخ کا دھارا بدلنے کیلئے چن لیتی ہے اور ایسے لوگ صرف اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے بھی جیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک میجک مین میرے دوست اور ممدوح چودھری نعیم نذر ہیں جنھوں نے جہالت کی غار سے سچائی کے راستے کی طرف ایک لمبا سفر طے کیا۔یوں تو دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو عملی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں لیکن بہت کم لوگ اپنی کامیابیوں میں دوسروں کو بھی شریک کرپاتے ہیں۔ جو عملی زندگی سے حاصل ہونے والے علم، مشاہدے، تجربے اور دولت کو صرف اپنی ذات تک محدود نہیں کرتے بلکہ اس کا فیض دوسرے لوگوں تک پہنچاتے ہوئے دنیا میں اپنا ایک ورثہ چھوڑتے ہیں۔اگر آپ غریب پیدا ہوتے ہیں تو اس میں آپ کا قصور نہیں لیکن اگر آپ غریب ہی مرتے ہیں تو یہ آپ کا قصور ہے کہ قدرت نے آپ کو جو صلاحیتیں دے رکھی ہیں آپ نے اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا۔ چودھری نعیم نذر بھی انھی لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی لیکن اپنے آپ کو پہچانا،بہت سے خواب دیکھے، محنت کی، بڑی سوچ کے ساتھ چھوٹا سا سٹارٹ لیا او ر جبر کی زنجیریں توڑ کر تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے تیس سال کے عرصے میں ایک بہت بڑی بزنس ایمپائر کھڑی کر دی۔ اندرون و بیرون ملک موجود ان کے کاروباری اداروں میں ہزاروں پاکستانی اور دیگر قومیتوں کے لوگ ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک میجک مین ہیں جنھوں نے ساری کامیابیوں کو دیگر دولت مند افراد کی طرح اپنی ذات تک محدودنہیں رکھا بلکہ اپنی کامیابیوں کو سماج سدھارنے کیلئے خوبصورتی سے استعمال کر رہے ہیں۔ نہ وہ اپنی مٹی کو بھولے ہیں اور نہ ہی اپنے ہم وطنوں کو بلکہ تمام عزیزوں، دوستوں اور اہل علاقہ کو اپنی کامیابی میں شریک کیا اور ایک مثبت سوچ کے ساتھ اپنے وسائل کو معاشرتی تبدیلی کیلئے وقف کر دیا۔ انھوں نے دکھی معاشرے کی خدمت اور سماجی شعور کی بیداری کیلئے نذر اینڈ نذر فاؤنڈیشن کی داغ بیل ڈالی اور عوام کی بے لوث خدمت کا س انداز میں آغاز کیا ہے کہ انٹرنیشنل این جی اوز بھی اس نوعیت کا کام شائد نہ کر سکیں۔ انھوں نے روائیتی جاگیرداروں کے برعکس اپنی ذرعی زمینوں اور درجنوں کاروباری اداروں سے حاصل ہونے والی آمدن کو لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا۔ مٹی کا قرض اتارنے کیلئے وہ نہ صرف اپنے آبائی علاقے پاکپتن میں فلاحی کاموں کا جال بچھا رہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے روائیتی سیاست دانوں، وڈیروں، خانوں اور گدی نشینوں کی اجارہ داری کو بھی اپنے ترقی پسندانہ سیاسی نظریات سے للکار رہے ہیں۔ گو نعیم بھائی کا لائف سٹائل جاگیرداروں اور نوابوں سے بھی بڑھ کر ہے لیکن وہ اندر سے ایک درویش ہے اور ان کا لائف سٹائل صرف معاشرتی ضرورت کے تحت ہے کیونکہ مثل مشہور ہے کہ صرف لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔اپنے قیام کے صرف دو سال سے بھی کم عرصے میں این اینڈ این کے پلیٹ فارم سے فلاحی کاموں کیلئے اب تک بیس کروڑ روپے خرچ کئے جاچکے ہیں۔ اب تک سینکڑوں غریب لوگ فری حج و عمرہ کی سعادت حاصل کر چکے ہیں اور اس وقت بھی سو سے زیادہ افراد خانہ کعبہ اور روضہ رسول پر موجود ہیں، سینکڑوں غریب لوگوں کو این اینڈ این کی طرف سے مکانات بنا کر دیے جا چکے ہیں۔ دس ایمبولنس مریضوں کیلئے موجود ہیں جبکہ مفت اور بہترین طبی سہولیات کو یقینی بنانے کیلئے ایک ہسپتال کا آغاز کر دیا گیا ہے۔تنظیم کی طرف سے ہزاروں ضرورت مندوں میں راشن اور گرم کپڑے تقسیم کئے گئے ہیں۔ سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ سنت نبوی کو آسان بناتے ہوئے اب تک قرعہ اندازی کے ذریعے دو سو سے ذائد اجتماعی شادیوں کا انتظام کیا گیا ہے جس میں ہر ضرورت مند بیٹی کو چھ لاکھ تک جہیز کا قیمتی اور پائیدار سامان فراہم کیا گیا۔ اس سلسلے میں چھ کروڑ روپے کے اخراجات سے سو اجتماعی شادیوں کی تقریب امسال بائیس نومبر کو سکندر چوک پاکپتن میں منعقد ہوئی جس میں سو نئے شادی شدہ جوڑوں سمیت دس ہزار مہمانوں نے شرکت کی اور تقریب میں مہمانوں اور باراتیوں کیلئے ایسے اعلیٰ پکوان کا انتظام کیا گیا جو امراء کی شادیوں پہ بھی نہیں ہوتا۔ نعیم بھائی این اینڈ این تنظیم کے ذریعے پیشہ وارانہ تعلیم و ہنر کو فروغ دینے اور پائیدار بنیادوں پر چلنے والے متعدد منصوبوں کا عنقریب آغاز کر رہے ہیں۔ نعیم نذر صحیح معنوں میں ایک میجک مین ہیں جن کی شخصیت سماجی و معاشی انقلاب کا استعارہ ہے۔