فوج کی سیاست میں مداخلت غیر آئینی ہے: آرمی چیف

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا جی ایچ کیو میں یوم دفاع کی تقریب سے الوداعی خطاب میں کہنا تھا کہ پچھلے سال فروری میں فوج نے بڑی سوچ و بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔جس پر ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ماضی کو بھلا کر ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔
یوم دفاع کی الوداعی تقریب سے خطاب میں آرمی چیف نے کہا کہ فوج کاسب سےپہلا کام اپنی سرحدوں کا دفاع کرنا ہے، میں کافی سالوں سے اس بات پر غور کر رہا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہندوستانی فوج کرتی ہے لیکن ان کی عوام کم و بیش ہی ان کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے، اس کے برعکس ہماری فوج جو دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے گاہے بگاہے تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ 70 سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں سیاست میں مداخلت ہے جو کہ غیر آئینی ہے،فوج نےفروری میں فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی، ہم اس پر سختی سے کاربند ہیں، مگر اس آئینی عمل کا خیرمقدم کرنےکے بجائے کئی حلقوں نے فوج کو شدید تنقید کانشانہ بناکر بہت نامناسب اور غیرشائستہ زبان استعمال کی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ فوج پر تنقید شہریوں اور سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن الفاظ کا مناسب چناؤ کرنا چاہیے، جعلی جھوٹا بیانیہ بناکر ملک میں ہیجان پیدا کیا، اب اس جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جارہی ہے، اعلی فوجی قیادت کو غیر مناسب القابات سے پکارا گیا، فوجی قیادت کچھ بھی کرسکتی ہے، لیکن ملکی مفاد کیخلاف کوئی کام نہیں کرسکتی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ناممکن بالکل گناہ کبیرہ ہےکہ ملک میں کوئی بیرونی سازش ہو اور فوج ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے، فوج اور عوام میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرنے والے ہمیشہ ناکام ہوں گے، فوج کے پاس اس یلغار کا جواب دینے کےلیے متعدد مواقع اور وسائل تھے لیکن اس نے ملکی مفاد میں حوصلے کا مظاہرہ کیا اور منفی بیان دینے سے گریز کیا، لیکن سب کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ صبر کی بھی ایک حد ہے۔
آرمی چیف کہا کہ میں اپنے اور فوج کیخلاف اس نامناسب اور جارحانہ رویے کو درگزر کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہوں، کیونکہ پاکستان ہم سب سے افضل ہے، افراد اور پارٹیاں تو آتی جاتی رہتی ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ تمام فریقین ماضی سے سیکھیں، آگےبڑھناہےتوعدم برداشت اورمیں نہ مانوں کارویہ ترک کرناہوگا، پاکستان سنگین معاشی مشکلات کا شکار ہے، امید ہے سیاسی جماعتیں اپنے رویئے پر نظرثانی کریں گی۔آرمی چیف نے کہا کہ میں آج ایک ایسے موضوع پر بھی بات کرنا چاہتا ہوں جس پر عموماً لوگ بات کرنے سے گریز کرتے ہیں اور یہ بات 1971 میں ہماری فوج کی سابقہ مشرقی پاکستان میں کارکردگی سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں یہاں پرکچھ حقائق درست کرنا چاہتا ہوں۔سب سے پہلے سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں بلکہ ایک سیاسی ناکامی تھی۔ لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں صرف 34 ہزار تھی، باقی لوگ مختلف گورنمنٹس کے ڈپارٹمنٹس کے تھے اور ان 34 ہزار لوگوں کا مقابلہ ڈھائی لاکھ انڈین آرمی، دو لاکھ تربیت یافتہ مکتی باہنی سے تھا لیکن اس کے باوجود ہماری فوج بہت بہادری سے لڑی اور بے مثال قربانیاں پیش کیں جس کا اعتراف خود سابق بھارتی آرمی چیف فیلڈ مارشل مانیکشا نے بھی کیا۔ان بہادر غازیوں اور شہیدوں کی قربانیوں کا آج تک قوم نے اعتراف نہیں کیا جو کہ ایک بہت بڑی زیادتی ہے۔
جنرل باجوہ نے کہا کہ میں آج اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تمام غازیوں اور شہیددوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور پیش کرتا رہوں گا۔ وہ ہمارے ہیرو ہیں اور قوم کو ان پر فخر ہونا چاہیے۔