ماحولیاتی تبدیلیاں اورہماری ذمہ داریاں
تحریر: (ماہ نور احمد)
ماحولیاتی تبدیلیوں کے کرہٗ ارض پر ممکنہ اثرات کا ایک جائزہ لیا جائے تو حیران کن انکشافات ہونگے۔ مثلاً بنگلہ دیش میں سطح سمندر اگر ایک میٹر سے بلند ہوجائے تو تقریبا سترہ اشاریہ پانچ فیصد حصہ سمندر بوس ہو جائے گا اسی طرح نائجیریا میں سطح سمندر بلند ہوجانے سے 30 لاکھ افراد جان کی بازی ہار جائیں گے۔
انسانی جان کے ساتھ ساتھ قدرتی مناظر، قدرتی وسائل اور جنگلی حیات بھی ناپید ہو جائے گی۔ کرہ ارض پر تیزی سے رونما ہونے والی ان تبدیلیوں کے حوالے سے امریکی مصنف می کین کا کہنا ہے کہ 2050 تک امریکی ریاست کیلیفورنیا جس کو جنت سے تعبیر کیا جاتا ہے جہنم میں تبدیل ہوجائے گی اورسیلیکون ویلی میں لگنے والی آگ کا دھواں ہر امریکی کے سانس کا لازمی جز ہوگا۔ اس وقت انسان 2050 میں محض پچھتاوے کا شکار ہوگا کہ 2020 میں توانائی کے قابل تجدید ذرائع (renewable energy resources) کا استعمال عمل میں لایا گیا ہوتا تو انسان کو اس عذاب سے چھٹکارہ مل گیا ہوتا۔
سائنسدانوں نے اس خطرے کا ادراک اور اس تشویش سے مطلع انیس سو پچانوے میں ہونے والی پہلی کانفرنس آف پارٹیز (COP) میں تمام ممالک کو کر دیا تھا تاکہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور اس کو ایک یا ڈیڑھ فیصد تک لانے میں تمام ممالک مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں لیکن انسانی فطرت ہے کہ وہ سہل پسند ہے۔ سائنسدانوں کے مطلع کیے جانے کے باوجود کہ قدرتی گیس میں میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے جو انسانی زندگی کے لیے خطرے اور سانس کی بیماریوں کا باعث ہے اس کے قطع نظر قدرتی گیس کو ذریعہ استعمال رکھا گیا اور یہاں تک نوبت آ گئی کہ گیس کے ذخائر بھی ختم ہونے لگے اور آب و ہوا میں منفی تبدیلیاں بھی رونما ہوگئیں۔ اسی طرح کوپ کانفر نسز منعقد ہوتی رہیں۔
ہر دفعہ وہی وعدے وہی امیدیں لیکن عملی سطح پر کاربن کے اخراج کو ایک یا ڈیڑھ فیصد تک لانے میں تمام ممالک عملی طور پر ناکام رہے۔ ہر دفعہ یہی عہد و پیما ہوتا رہا کہ ترقی یافتہ ممالک کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے بجٹ مختص کریں گے تا کہ ترقی پذیر ممالک جو ترقی یافتہ ممالک کی وجہ سے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا شکار ہیں ان میں ماحولیاتی آلودگی کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔
اس سال کوپ27 کا انعقاد مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہوا جس میں صدر مصر کا دعویٰ تھا کہ شرم الشیخ کو انہوں نے ایک گرین سٹی بنا دیا ہے۔ 2018 میں پانچ ملین امریکی ڈالر سے یہ پراجیکٹ شروع ہوا اور اس پراجیکٹ کے تحت ویسٹ ری سائیکلنگ کا استعمال ہوا، پلاسٹک مصنوعات پر پابندی اور قابل تجدید ذرائع کا استعمال عمل لایا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں آلودگی کی شرح کم ہو گی۔
کرہ ارض کا ہر خطہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کا شکار ہے طوفان زلزلہ اور سیلاب روز کا معمول بن گئے ہیں پاکستان اس کی ایک اہم مثال ہے موجودہ حالات میں تیس سال کی اوسط شرح سے زیادہ بارشیں ہوئیں جس کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا اس میں 33 لاکھ لوگ متاثر ہوئے جس میں 10لاکھ کے قریب بچوں کی تعداد تھی۔ سیلاب سے نقصان کا تخمینہ31 ارب ڈالر تھا۔
(COP-27)کوپ ٹوینٹی سیون میں وزیراعظم شہباز شریف نے مدلل انداز میں عالمی سطح پر پاکستان میں ہونے والے نقصانات اور اس کے نتیجے میں اقوام عالم کی جانب سے امداد کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی ترقی یافتہ ممالک کو باور کروایا کہ ماحولیات میں تبدیلی کے منفی اثرات کو روکنے کے لیے طے شدہ فنڈز ریلیزکریں۔ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصان کا31 تخمینہ ہے جو 31ملین ڈالر. انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے اذحد ضروری ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک اس میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے تو دنیا کے تمام ممالک کو ان ناگہانی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا یہ بات قابل ستاءش ہے کہ۔
وزیراعظم شہبازشریف کی کوششیں رنگ لے آئیں، موسمیاتی نقصانات کے ازالے کے لئے عالمی فنڈ قائم کر دیاگیا’کاپ۔27‘ نے نئی تاریخ لکھی، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سمیت عالمی قائدین نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔’ڈیمیج اینڈ لاس‘ فنڈ کا قیام موسمیاتی انصاف کی طرف عملی پیش رفت ہے۔وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول اور وزیر موسمیات شیری رحمان نے موسمیاتی انصاف کے لئے علاقائی اور عالمی سطح پر بھرپور آواز بلند کی تھی۔
’ڈیمیج اینڈ لاس‘ فنڈ کے ذریعے سیلاب سمیت دیگر موسمیاتی نقصانات کے شکار ممالک کو مالی معاونت مل سکے گی،پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو میں بڑی مدد مل سکے گی ۔پیرس ایکارڈ اور گرہن مارشل پلان کے مقابلے میں ‘کاپ-27’ نے عملی قدم اٹھا کر تاریخ لکھی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات اور ان کے ازالے پر مشتمل
موسمیاتی تبدیلوں سے لاحق خطرات سے نمٹنے میں یہ فنڈ ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔لیکن ایک بات بہت اہم ہے کہ سرکاری سطح پر تبدیلیوں کو روکنے کے لئے کاوشیں بھی اس وقت کارگر ہونگی جب انفرادی سطح پر لوگ اپنا کردار ادا کریں گے اس سے نہ صرف ملک بلکہ آنے والی نسلوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے گا۔