بیس دینار بھی اچھا سودا ہے
تحریر 🙁 عمران امین )
ایک شخص نہایت رغبت سے مسجد میں اذان دیا کرتا تھا لیکن آوز اس قدر بری تھی کہ سننے والے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیا کرتے تھے۔مسجد کا متولی ایک نیک صفت انسان تھا اگرچہ وہ موذن کو پسند نہیں کرتا تھا مگر اُس کا دل بھی آزردہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔آخر ایک ترکیب اُس کی سمجھ میں آئی اور اُس نے موذن سے کہا کہ بھائی ہماری مسجد کا قدیمی موذن واپس آگیا ہے جس کی تنخواہ پانچ دینارماہانہ ہے۔اب آپ کی ضرورت نہیں مگر پھر بھی ہم آپ کو دس دینار دے رہے ہیں تاکہ آپ یہاں سے کہیں اور چلے جائو۔موذن بہت خوش ہوا کہ مفت میں دس دینار مل گئے ہیں لہذا وہ خوشی خوشی وہا ں سے روانہ ہو گیامگر کچھ عرصے کے بعد وہ واپس آیا اور مسجد کے متولی سے مل کر گلہ کرنے لگا کہ آپ نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا اور صرف دس دینار دے کر نکال دیا مگر اب میں جس جگہ ہوں وہاں کے لوگ مجھے بیس دینار دے کر رخصت کر رہے ہیں مگر میں قبول نہیں کر رہا۔یہ سن کر متولی بولاٴٴخبردار بیس دینار لے کر راضی نہ ہونا،جلد ہی وہ تمہیں پچاس دینار دے کر رخصت کریں گےٴٴ۔اس کہانی سے ملتی جلتی کہانی چند سالوں سے ہمارے ملک میں بھی چل رہی ہے۔ مسترد شدہ سیاست دان آج بھی اپنے آپ کو وقت کا حکمران سمجھتے ہیں اور آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کسی طریقے سے اقتدار اُن کی جھولی میں گر جائے اور اُن کی زبان سے نکلا ہر لفظ، حکم شاہی بن جائے۔ غفلت میں پڑے خود فریبی کا شکار یہ لوگ جانتے ہیں کہ اُن کی جھولی داغدار ہونے کے ساتھ ساتھ پھٹی ہوئی بھی ہے نیز زبان پر چھالے پڑ چکے ہیں لہذا اب کوئی ان کی فریب کاری میں نہیں اآئے گا ۔ان سیاسی نا خدائوں کی بے بسی اور لاچارگی دیکھ کر انسانی ہمدردی کی وجہ سے ملکی ادارے اُن کو خود راستہ بھی دے رہے ہیں کہ باز آ جائو اورسدھر جائو،اپنے لیے SAFE EXITلے لو۔ سابق وزیر اعظم کا برطانیہ جانا ،مریم صفدر کا لمبے عرصے سے ضمانت پر ہونا، شہباز شریف اور زرداری کا اب تک بے گناہ ہونا، اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی مگر کیا کریں، اُن کے لیے اقتدار کی لت مزید ذلت کا سبب بن رہی ہے۔پہلے سلامتی کے اداروں کو ہدف تنقید بنایا بلکہ اداروں کے سربراہوں کا نام لے کر من گھڑت الزامات کی بوچھاڑ کی گئی جب وہاں سے ناکامی ہوئی تو اب معزز عدلیہ کو تختہ مشق بنایا جا رہاہے۔پہلے گلگت بلتستان کے چیف جج رانا شمیم کا بیان حلفی اور اب سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک۔اسلام آباد ہائی کورٹ میںبیان حلفی کی سماعت کی تاریخ 26 نومبر ہے جبکہ آڈیو لیک 21نومبر کو سامنے آتی ہے یوں نظر آتا ہے کہ نون لیگ اپنی قیادت کی عدالتوں سے بریت کے لیے یہ سب ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت کر رہی ہے اور خصوصی طور پر جسٹس ٟرٞثاقب نثار کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔مگر سلسلہ یہی تک نہیں رُکا بلکہ جسٹس ٟرٞ ثاقب نثار پر ذاتی حملوں کے بعد پاکستانی نظام عدل اور معزز عدلیہ کو بھی عوام میں بدنام کرنے کے لیے ایک نیا حملہ کیا گیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں وکلائ تحریک کے ہر اول دستے میں شامل علی احمد کرد نے تقریر کرتے ہوئے عدلیہ پر الزامات کی بارش کر دی اور دشمن قوتوں کو موقع دیا کہ وہ ہمارے نظام انصاف پر انگلیاں اُٹھائیں۔اس کانفرنس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت کئی معززجج حضرات مدعو تھے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ جب انصاف کی بحالی، عدالتوں کی بالادستی اور جرم کی بیخ کنی بات ہورہی تھی ایسے میں جان بوجھ کر عدلیہ مخالف نظریات کا اظہار کیا گیا۔ ان الزامات کے جواب میںچیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد نے بھی اپنے خطاب میں جارحانہ انداز میں عدلیہ کی کارکردگی کو پیش کیا اور بتایا کہ کس قدر نامساعد حالات میں عدلیہ اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہی ہے۔انہوں نے مخالفین کو کھلا چیلنج دیا کہ وہ ثابت کریں کہ عدلیہ غلط کام کر رہی ہے۔انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ عدلیہ پر کسی قسم کا دبائو نہیں ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس کانفرنس کے منتظمین نے ایک مفرور اور ملزم شخص کو بھی دعوت خطاب دی۔شاید آئندہ کی کانفرنسوں میں سپریم کورٹ بار تمام ملزمان کو خطاب کرنے کی دعوت دیا کرے گی کیونکہ اس کانفرنس میں سپریم کورٹ بار کی موجودہ قیادت صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے آزادی اظہار رائے کی وکالت کرتی نظر آئی رہی اور اسی نسبت سے عدالتی بھگوڑے نواز شریف کو اس کانفرنس میں خطاب کرنے کا موقع دیا گیا۔اس تقریب میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی مدعو تھے مگر نواز شریف کو خطاب کا موقع دینے پر احتجاجاً کانفرنس کا بائیکاٹ کیا جو کہ ایک مستحسن عمل ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم کی تقاریر دکھانے پر ٹی وی چینلز پر توہین عدالت کا نوٹس بھیجنے والی پی ٹی آئی حکومت اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری ایک مفرور شخص کی تقریر براہ راست دکھانے پران وکلائ حضرات کے خلاف کیا ایکشن لیتے ہیں یا مصلحتاً خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ مسترد شدہ، ناکارہ، کرپٹ اور بے سُری سیاسی قیادت کو سمجھ جانا چاہیے کہ عزت اسی میں ہے کہ وہ سیاست سے ریٹائر منٹ لے لیں کہ مبادا ایسا وقت آ جائے جب انہیں دس دینار بھی کوئی نہ دے۔ لہذا اُن کے لیے ایک مشورہ ہے کہ پچاس کے چکر میں نہ پڑیں، بیس دینار بھی اچھاسوداہے.