سری لنکا میں پٹرول کا ’’قحط‘‘، عوام کو فروخت پر پابندی
دہائیوں کے بدترین معاشی بحران کے دوران سری لنکا نے غیرضروری گاڑیوں کے لیے پیٹرول کی فروخت پر پابندی لگا دی ہے۔
اگلے دو ہفتوں کے دوران سری لنکا میں بسوں، ٹرینوں اور ایسی گاڑیوں کو ہی کو ایندھن بھروانے کی اجازت ہو گی جو میڈیکل سروسز یا خوراک کی نقل و حمل کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
شہری علاقوں میں سکول بند کر دیے گئے ہیں جبکہ حکام کی جانب سے ملک کی دو کروڑ 20 لاکھ کی آبادی کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
گذشتہ کئی ماہ سے سری لنکا بھر میں پیٹرول سٹیشنز پر لمبی قطاریں عام ہیں اور اس جزیرے کے اکثر رہائشیوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ ایندھن کے بغیر کیسے گزارا کریں گے۔
جنوبی ایشیائی ملک اس وقت بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ اس وقت اسے ایندھن اور خوراک کی درآمدات میں مشکل پیش آ رہی ہے۔
فنانشل سروسز کمپنی انویسٹک میں آئل اینڈ گیس پر تحقیق کرنے والے نیتھن نیپیئر بتاتے ہیں کہ سری لنکا وہ پہلا ملک ہے جس نے عام آدمی کے لیے ایندھن کی فراہمی پر پابندی عائد کی ہے۔
‘یہ سنہ 1970 کے ایندھن بحران کے بعد سے پہلی مرتبہ ہوا ہے جب امریکہ اور یورپ میں ایندھن کو راشن کیا گیا تھا اور طلب کم کرنے کے لیے رفتار کی حدود مختص کی گئی تھیں۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ پابندی تیل کی قیمتوں میں بڑے اضافے اور سری لنکا میں زرِمبادلہ کے محدود ذخائر کے باعث لگائی گئی ہے۔
کولمبو کے 29 سالہ ٹیکسی ڈرائیور چنتھاکا کمارا کے کا ماننا ہے کہ یہ پابندی ‘لوگوں کے لیے مزید مسائل پیدا کرے گی۔’
انھوں نے کہا کہ ‘میں ایک دیہاڑی دار ہوں، میں اس قطار میں تین روز سے لگا ہوا ہوں اور مجھے نہیں معلوم کے ہمیں پیٹرول کب ملے گا۔’
ڈرائیورز کو ٹوکن دے کر گھر جانے کا کہہ دیا گیا تاکہ کم مقدار میں موجود ایندھن کو راشن کرنے کا انتظام کیا جا سکے۔ کچھ ڈرائیور قطار میں لگتے رہے، دیگر نہ رک سکے۔
پرائیویٹ سیکٹر ایگزیکٹو 52 سالہ ایس وجے ٹنگا نے کہا کہ ‘میں دو روز تک قطار میں لگا رہا۔ مجھے ٹوکن نمبر 11 دیا گیا لیکن مجھے نہیں معلوم کہ ایندھن کب ملے گا۔ مجھے دفتر بھی جانا ہے، اب میرے پاس کوئی آپشن نہیں ہے سوائے اس کے کہ میں کسی رکشے میں بیٹھ کر جاؤں۔’
رکشہ ڈرائیور کینات کولمبو کے مضافات میں رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے طبقے کے افراد ’تباہ ہو رہے ہیں۔’
انھوں نے بتایا کہ ‘میری فیملی پہلے تین وقت کا کھانا کھایا کرتی تھی۔ اب ہم صرف دو وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔ اگر یہ ایسے ہی چلتا رہا تو پھر شاید ہم صرف ایک وقت کی روٹی ہی کھا پائیں گے۔