نشاں پیروں کے دریا پر نمایاں کون دیکھے گا

غزل
نشاں پیروں کے دریا پر نمایاں کون دیکھے گا
سوائے چاند کے ہم تم کو رقصاں کون دیکھے گا
سیاہی بڑھتی جاتی ہے تمہارے سرد لہجے کی
سوادِ عشق میں لیلِ زمستاں کون دیکھے گا
تمہارے خواب زندہ ہیں فقط اس دل کی موجوں میں
سمندر مٹ گئے تو ابرِ نیساں کون دیکھے گا
جو اپنی ذات کی سُولی پہ چڑھ جائیں مروت میں
انہیں دشتِ فنا میں پا بہ جولاں کون دیکھے گا
صداقت ہی چھلکتی ہے تری باتوں کے شیشے سے
مگر اس آئینے میں سچ کو عریاں کون دیکھے گا
روایت مٹ رہی ہے چائے پی کر شعر کہنے کی
ہماری وحشتوں کو اب مری جاں کون دیکھے گا
تعلق توڑ دینا اب تو رائج ہو گیا نیلمؔ
کسی کے لوٹ کر آنے کا امکاں کون دیکھے گا
نیلم بھٹی
مشی گن، امریکہ
Load/Hide Comments