امریکا میں افراط زر کی شرح گزشتہ30 سال کی بلند تری سطح پر
واشنگٹن (واصب ابراہیم غوری سے): امریکا میں افراط زر کی شرح گزشتہ30 سال کی بلند تری سطح پر پہنچ گئی ہے اور صدر جو بائیڈن نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے بھر پور اقدامات کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ساحلی شہر بالٹی مور میں اپنے خطاب کے دوران انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکی شہریوں کو روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء خریدنے کے لئے پہلے کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔
انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ملک میں افراط زر کی شرح گزشتہ ماہ 30 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی تھی۔کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں تیزی سے اضافہ کو امریکی انتظامیہ اور اقتصادی ماہرین دونوں نے حیران کن قرار دیا ہے۔
امریکا کے سرکاری اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2020کے مقابلہ میں کنزیومر پرائس انڈیکس اکتوبر 2021 میں 6.2 فیصد بڑھا ہے جو نومبر 1990یعنی گزشتہ تین عشروں کے دوران سب سے زیادہ اضافہ ہے اور اشیاء کے نرخ اور خدمات کے معاوضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکا کے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ستمبر کے مقابلہ میں اکتوبر کے دوران سی پی آئی انڈیکس میں 0.9 فیصد اضافہ ہوا جو اس سے پیوستہ ماہ کے مطابلہ میں دوگنا اور اقتصادی ماہرین کے تخمینوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ رپورٹ کے مطابق صرف ایک ماہ کے دوران پٹرول کے نرخوں میں 6.1 فیصد اور فیول آئل کے نرخوں میں 12.3فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔
اسی ایک ماہ کے دوران غذائی اشیاء کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوا۔اس کے علاوہ استعمال شدہ کاروں کی قیمتوں میں بھی 2.5 فیصد کا ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔گھروں کی قیمتیں اور ان کے کرائے بھی بڑھ گئے۔اقتصادی ماہر ایان شفرڈسن نے اس صورتحال کو محض ایک آغاز قرار دیتے ہوئے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ آنے والے چند ماہ میں صورتحال کہیں زیادہ سنگین ہو سکتی ہے۔
اس صورتحال کے پس منظر میں فیڈرل ریزرو نے بھی شرح سود میں اضافے کا عندیہ دے دیا ہے اور اقتصادی ماہر کیتھی بوسٹ جینسک کہا ہے کہ افراط زر میں اضافے کی صورتحال مزید چند ماہ تک برقرار رہ سکتی ہے۔ امریکی صدر نے اس صورتحال میں لوگوں سے انفراسٹرکچر کی اوورہالنگ کے لئے اپنے 12 کھرب ڈالر کے مجوزہ پیکیج کی حمایت کی اپیل کی اور دعویٰ کیا کہ اس پیکیج سے امریکی شہریوں کے لئے صورتحال تبدیل ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ پیکیج سے اشیاء ضروریہ کے نرخوں میں کمی ہوگی اور ان کی ترسیل میں حائل رکاوٹیں دور ہوں گی۔
امریکی صدر نے اعتراف کیا کہ گاڑیوں کے فیول سے لے کر بریڈ تک ہر ایک چیز کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے دوران امریکی میں افراط زر کی صورتحال میں کوئی خاص کمی بیشی نہیں دیکھی گئی تاہم بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن کے بعد معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے آغاز میں ہی اس میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
اس کی وجوہات میں صارفین کی طرف سے مانگ میں اضافہ اور امریکی اداروں میں ملازمین کی قلت نے نمایاں کردار ادا کیا کیونکہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران لاک ڈائونز کی وجہ سے اشیاء کی طلب میں کمی کے باعث بڑی تعداد میں ملازمین کو فارغ کر دیا گیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ترسیل کا نظام سست پڑ جانے کی وجہ سے سیمی کنڈکٹرز اور دیگر اہم اجزا کی بروقت فراہمی نہ ہو سکی اور ان کی قلت پیدا ہو گئی۔
جو بائیڈن نے دعویٰ کیا کہ انفراسٹرکچر کی اوورہالنگ اور سماجی بہبود کے منصوبوں پر خطیر فنڈز خرچ کر کے وہ اس بحران پر قابو پا لیں گے تاہم ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ عوام کے ٹیکسوں کے ایک بڑے حصے کو ان مدات میں خرچ کرنے کے نتیجہ میں اقتصادی بحران سنگین تر ہو نے کا خطرہ ہے۔
جو بائیڈن کی اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جوئے منچن نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں ریکارڈ افراط زر سے عوام کو لاحق خطرات ہرگز عارضی نہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورت حال سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔