جنوبی ایشیا میں امن اور تنازع کشمیر

تحریر : اُمِ ہانی طالب علم اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور

جنوبی ایشیا امن کے لیے انڈیا اور پاکستان کے در میان اچھے تعلقات کا ہونا بے حد ضروری ہے ان دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کا تنازعہ جب تک حل نہیں ہوگا تب تک جنوبی ایشیا میں امن ممکن نہیں ہے ۔حال ہی میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گردی کا سانحہ پیش آیا اس سانحہ میں 26 افراد کو قتل کیا گیا بھارت کی جانب سے اس سانحہ کا ذمہ دار ٹی آر ایف کو ٹھہرایا جا رہا ہے جو کہ لشکر طیبہ کی ایک شاخ ہے اور بھارت کی جانب سے دہشت گرد تنظیم ڈیکلیئرڈ ہے۔
بھارت کی طرف سے موقف ہے کہ یہ کراس بارڈر دہشت گردی ہے اور اس کا الزام پاکستان پہ لگایا گیا ہے جبکہ دوسری جانب بہت سے ممالک نے سانحہ پہلگام کی مذمت کی ہے ۔ امریکی وزیراعظم ڈونر ٹرمپ نے سانحہ پہلگام کے بارے میں اپنا بیان دیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف مذمت کی ہے۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی سانحہ کے دوران سعودی عرب کے دورے پر تھے اور واقعے کی اطلاع ملتے ہی دورہ منقطع کر کے واپس بھارت آگئے ۔اج ہی وزیراعظم نے پاکستان کے خلاف جارحانہ بیانات دیے اور سندھ طاس معاہدے کو بھی معطل کرنے کا بیان جاری کیا۔اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مودی پاکستان کے ساتھ ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی جارحانہ پالیسی سے کام لے رہا ہے۔اس سانحہ پر جہاں بھارتی میڈیا کو موجودہ حکومت سے یہ پوچھنا چاہیے کہ اتنی سیکیورٹی کے باوجود کیسے دہشت گرد انڈیا کی سرحد میں داخل ہوئے بلکہ اس کے برعکس میڈیا بھی بی جے پی کے بیانیوں کو اگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردی کا ذمہ دارٹھہرا رہی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے ہائلی ملیٹرائزڈ زون کشمیر میں اتنی سیکیورٹی فورس کے باوجود کیسے دہشت گرد اسلحے کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے؟
حیرانگی ہے کہ انڈیا خود کو دنیا کی سب سے بڑی ڈیموکریسی کہتا ہے،اور میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہوتا ہے لیکن اس نام نہاد جمہوری ریاست میں میڈیا بھی بی جے پی کے انتہا پسند بیانیوں کو پرموٹ کر رہا ہے اور اپنا کردار ٹھیک سے ادا نہیں کر رہا۔
جبکہ بھارتی میڈیا کا کردار ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا بی جے پی کی حکومت سے پہلے بھارتی میڈیا حکومت کی غلطیوں پر سوار بھی اٹھاتا تھا اور عوام کی رائے بھی پیش کرتا تھا لیکن بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا کی پہلی ترجیح بی جے پی کے بیانوں کو پرموٹ کرنا رہ گیا ہے۔
ایک اور چیز جو واضح طور پر مودی دور میں دیکھی جا سکتی ہے وہ ہے ہندو مسلم تنازعات،بی جے پی نے ہمیشہ ہی اینٹی مسلم سینٹیمنٹس کو ہوا دی ہے اس ضمن میں ہندوتوا کی تحریک اہم ہے۔ اس کے علاوہ بی جی پی نے کبھی پاکستان کے ساتھ بہتر سفارتی تعلقات قائم کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بالی وڈ نے اینٹی پاکستانی موویز بنائی ہیں جس سے پبلک اوپینین پاکستان کے لیے منفی رہا ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اب تک بہتر نہیں ہوئے۔
جہاں تک مودی حکومت کا بیانیہ ہے کہ اس سانحہ کا ذمہ دار پاکستان ہے تو یہ محض مودی کی پاکستان کی ساخت کو خراب کرنے کی ایک اور سازش ہے اور کچھ نہیں کیونکہ پاکستان کو بہت سے اندرونی مسائل کا سامنا ہے۔پاکستان سیاسی اور معاشی مسائل سے گزر رہا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے ۔پاکستان کو مغربی بارڈر سے دہشت گردی کے مسائل کا سامنا ہے اور حال ہی میں ہونے والے جعفر ایکسپریس کا سانحہ اس کی واضح مثال ہے اس کے علاوہ ایکس فاٹا میں حافظ گل بہادر گروپ کی موجودگی پاکستان کے لیے انٹرنل سیکیورٹی کا ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔اگر رکھنے والوں کے لیے واضح دلیل ہے کہ ان تمام صورتحال میں پاکستان آخر کیوں مشرقی بارڈر کو ڈی سٹیبلائز کرے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پرامن طریقوں کے ذریعے دونوں ممالک اپ اسی طرح ذات کو حل کریں۔سارک کی تنظیم کو دوبارہ فعال کیا جائے اور علاقائی سالمیت پر کام کیا جائے۔جنوبی ایشیا کے تمام ممالک ساگ کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں اور دہشت گردی کے خلاف کلیکٹو ایفرٹس کریں۔دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں افغانستان کو بھی شامل کیا جائے اور خطے کے امن کے لیے کام کیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ کلچرل پروگرامز اور پیپل ٹو پیپل کنیکٹوٹی کو بھی فروغ دیا جائے۔سب سے اخری اور ضروری فیکٹر ٹریڈ پر بھی کام کیا جائے۔ سارک ممبرز اجتماعی کوششوں سے ہی جنوبی ایشیا کے خطے کو پرامن اور ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں۔