سیاسی و پارلیمانی قیادت کی قومی سلامتی ، خارجہ امور اور ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز سے متعلق بریفنگ کی تعریف، خطرات اور چیلنجز سے نمٹنےکیلئے اقدامات پر اظہار اطمینان

Parliament Building

اسلام آباد: سیاسی و پارلیمانی قیادت نے آئی ایس آئی کی جانب سے قومی سلامتی ، خارجہ امور اور ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز سے متعلق جامع بریفنگ کو سراہا ہے اور ان خطرات اور چیلنجز سے نمٹنےکیلئے کئے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس پیر کو سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے علاقائی و سیاسی چیلنجز بالخصوص خطے میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں خصوصاً تنازعہ کشمیر اور افغانستان کی حالیہ صورتحال کے حوالے سے جامع بریفنگ دی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بریفنگ کے دوران ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے پریزنٹیشن دی جبکہ بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سوالات کے جواب دیئے۔ انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور اپوزیشن کے دیگر رہنمائوں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے افغانستان کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق حکومت کا نقطہ نظر، اب تک اس پر پیشرفت اور افغانستان کے مستقبل سے متعلق پاکستان کی حکومت کی خواہش سے آگاہ کیا۔ اس اقدام کا مقصد اپوزیشن رہنمائوں کو اعتمادمیں لینا تھا، انہیں اعتماد میں لیا گیا اور انہیں پوری صورتحال سے آگاہ کیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ ان کیمرہ اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ کرنے کے پابند نہیں تاہم اجلاس خوشگوار ماحول میں ہوا جہاں فریقین نے ایک دوسرے کا نقطہ نظر صبر و تحمل سے سنا۔

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ بریفنگ بہترین ماحول میں ہوئی، ایسا ماحول برقرار رہنا چاہئے۔ تحریک طالبان پاکستان سے متعلق فیصلہ کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ایک اور سوال میں ان سے پوچھا گیا کہ وزیراعظم عمران خان کے واضح مؤقف ’’ابسلیوٹلی ناٹ‘‘ سے متعلق بھی کوئی فیصلہ کیا گیا ہے تو وزیر داخلہ نے نفی میں جواب دیا۔

اجلاس میں ملک کی سیاسی و پارلیمانی قیادت، اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ، صوبائی و آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی قیادت نے شرکت کی۔ شرکا کی اکثریت نے کہا کہ وہ کثیر جہتی خطرات بالخصوص مغربی ہمسایہ سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے اعلیٰ خفیہ ادارہ کی جانب سے کئے گئے مؤثر اقدامات سے متاثر ہوئے ہیں، یہ ہمسایہ ملک اپنے مذموم عزائم کے حصول کیلئے افغانستان کی این ڈی ایس کو استعمال کرکے اس کی سرزمین بھی استعمال کر رہا تھا، اس کی روک تھام کیلئے مؤثر اقدامات کے باعث پاکستان آج غیر ملکی سرمایہ کاروں اور سیاحوں کیلئے محفوظ ملک بن چکا ہے۔

شرکا نے ان کیمرہ بریفنگ ہونے کے باعث نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان جوابی اقدامات کا اندازہ ان حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت پاک فوج صرف محدود خفیہ اطلاعات پر کارروائیاں کر رہی ہے کیونکہ مخالف انٹیلی جنس ایجنسیوں کو یہاں تخریبی کارروائیاں کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ایک رکن پارلیمنٹ نے بھارتی مسلح افواج کے سینئر حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی جانب سے چلائے جانے والے دہشت گرد نیٹ ورک کا بھانڈا پھوڑنے سے متعلق آئی ایس آئی کی کامیاب کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مختلف تہوں میں چھپے ہوئے ایسے پیچیدہ نیٹ ورک کو بے نقاب کرنا غیر متوقع تھا۔

ایک حکومتی سینیٹر نے وزیراعظم عمران خان کے مختلف بیانات کا حوالہ دیا جہاں انہوں نے بیرونی اور اندرونی خطرات سے نمٹنے اور ملک کے تحفظ کیلئے آئی ایس آئی کے کردار کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ مختلف ملاقاتوں اور دوروں کے دوران ملک کے استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ان کے کردار کو سراہا۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ایک اور سینیٹر نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ قومی اہمیت کے اہم امور پر تمام فریقوں کا نقطہ نظر جاننے کیلئے اس قسم کے اجلاس اچھی بات ہے۔

انہوں نے بھارتی خفیہ ادارہ ’’را‘‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں سے متعلق آئی ایس آئی کی جانب سے اکٹھے کئے گئے ناقابل تردید ثبوتوں کے کئی ڈوزیئر جاری کرنے کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ کس طرح ملک میں تقسیم اور افراتفری پھیلانے کے خواہاں تھے۔ خیبرپختونخوا سے ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ آئی ایس آئی کا سابق افغان صدر اشرف غنی کی حکومت میں افغانستان کی جانب سے آنے والے خطرات کو ناکام بنانے میں اہم کردار ہے کیونکہ اس وقت افغان سرزمین پاکستانی عوام کے خلاف مذموم مقاصد کیلئے استعمال کی جا رہی تھی۔

اجلاس میں بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار اور دیگر اعلیٰ فوجی حکام نے شرکت کی۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور سید یوسف رضا گیلانی ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی محمد قاسم خان سوری، وفاقی وزرا شاہ محمود قریشی، چوہدری فواد حسین، چوہدری طارق بشیر چیمہ، شیخ رشید احمد،پرویز خٹک، اسد عمر، شفقت محمود، ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ، علی امین گنڈا پور، مراد سعید، سید شبلی فراز، ڈاکٹر فروغ نسیم، اعجاز احمد شاہ، مونس الہی ، نور الحق قادری، عمر ایوب خان، سید فخر امام ، سید امین الحق، وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف، وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان، چیئر مین کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ملک محمد عامر ڈوگر، سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم، ارکان قومی اسمبلی بلاول بھٹو زرداری، اسد محمود، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، غوث بخش خان مہر، عامر حیدر اعظم خان، نوابزادہ شاہ زین بگٹی، اراکین سینیٹ شیری رحمان، اعظم نذیر تارڑ، انوار الحق کاکڑ، مولانا عبدالغفور حیدری، سید فیصل علی سبزواری، محمد طاہر بزنجو، ہدایت اللہ خان، محمد شفیق ترین، کامل علی آغا، مشتاق احمد، سید مظفر حسین شاہ، محمد قاسم اور دلاور خان شریک ہوئے۔ اراکین قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی، خواجہ محمد آصف، رانا تنویر حسین، احسن اقبال چوہدری، راجہ پرویز اشرف اور حنا ربانی کھر ، سید نوید قمر ، محسن داوڑ ، خواجہ سعد رفیق ، طارق صادق ، سید فیاض الحسن ، سینیٹر میاں رضا ربانی اور قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے دفاع کے ممبران نے خصوصی طور شرکت کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں