فسانے دل کی باتوں کے مکمل ہو نہیں پاتے
غزل
فسانے دل کی باتوں کے مکمل ہو نہیں پاتے
ہم ان کی آرزو کا بانکپن بھی کھو نہیں پاتے
ہمارے پاس آ کر نیند اکثر لوٹ جاتی ہے
تمہارے خواب آنکھوں سے لپٹ کر سو نہیں پاتے
ذرا گھبرائے رہتے ہیں وہ غنچے آرزوؤں کے
مقدر میں ترے دامن کی خوشبو جو نہیں پاتے
پڑے رہتے ہیں دھڑکن میں نشاں فرقت کی راتوں کے
دلوں کے داغ آنسو کیا ، سمندر دھو نہیں پاتے
سنا ہے پھول تیرے شہر میں کِھلتے ہیں بے موسم
ترے دل میں وفا کا بیج لیکن بو نہیں پاتے
مسائل بڑھ گئے ہیں آشنائی کے بہت اب تو
کبھی ہم ہنس نہیں پاتے کبھی ہم رو نہیں پاتے
عجب سی کشمکش میں دل رہا ان کا سدا نیلمؔ
ہمارے ہونے لگتے ہیں مگر پھر ہو نہیں پاتے
نیلم بھٹی
مشی گن، امریکہ
Load/Hide Comments