اسلام آباد میں پاک-سی 2 انرجی ٹرانزیشن ڈائیلاگ، شیری رحمان کا کم کاربن ترقی اور علاقائی توانائی تعاون پر زور
یوتھ ویژن نیوز : (خصوصی کاوش ڈیجیٹل میڈیا ہیڈ علی رضاسے) انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (Institute of Regional Studies – IRS) اسلام آباد کے زیر اہتمام ’’پاک-سی 2 انرجی ٹرانزیشن ڈائیلاگ: چیلنجز اینڈ پراسپیکٹس‘‘ کے عنوان سے ایک اہم مکالمہ منعقد ہوا، جو COP-30 سے قبل پری ایونٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا۔ اس پروگرام کا انعقاد انسٹیٹیوٹ کے ’’کلائمیٹ ریزیلینس پروگرام‘‘ اور ’’سینٹرل ایشیا پروگرام‘‘ کے اشتراک سے کیا گیا، جس میں توانائی کے ماہرین، پالیسی سازوں، سفارت کاروں اور ماحولیاتی ماہرین نے شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستان کے توانائی کے شعبے میں کم کاربن ترقی، صنعتی پائیداری، اور علاقائی سطح پر توانائی کے تبادلے اور تعاون کی ضرورت پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
تقریب کی مہمانِ خصوصی سینیٹر شیری رحمان تھیں، جو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن ہیں۔ انہوں نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے قابلِ تجدید توانائی، گرین ٹیکنالوجی اور علاقائی تعاون پر مبنی پالیسیوں کو تیز رفتاری سے اپنانا ہوگا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کی پائیدار ترقی صرف اسی صورت ممکن ہے جب توانائی کے نظام کو ماحول دوست اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔
صدر انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز، سفیر جوہر سلیم نے افتتاحی اور اختتامی کلمات میں پاکستان کے موسمیاتی اقدامات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف منتقلی پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں موسمیاتی سفارت کاری کو فروغ دے رہا ہے اور شراکت داری کے ذریعے مشترکہ ترقی کا خواہاں ہے۔
مکالمے میں شریک ممتاز ماہرین میں پاکستان کلائمیٹ چینج اتھارٹی (PCCA) کے ممبر مٹیگیشن سعداللہ ایاز، انجینئر خدا بخش، چیف ایگزیکٹو آفیسر انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (EDB)، وزارتِ صنعت و پیداوار، روسی اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف چائنا اینڈ کنٹیمپرری ایشیا کے معروف محقق ڈاکٹر نکیتا ایلیرٹسکی، اور وزارتِ توانائی کے پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (PPIB) کے ڈائریکٹر محمد فیصل شریف شامل تھے۔
ماہرین نے اپنے خطابات میں کہا کہ پاکستان توانائی کے متبادل ذرائع خصوصاً شمسی، ہوا اور ہائیڈرو پاور کے فروغ کے ذریعے کم کاربن ترقی کی راہ پر گامزن ہے، تاہم اس مقصد کے لیے پالیسی تسلسل، صنعتی اصلاحات، اور بین الاقوامی سرمایہ کاری ناگزیر ہیں۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ علاقائی ممالک خصوصاً وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون نہ صرف معاشی استحکام بلکہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ’’کلائمیٹ ریزیلینس پروگرام‘‘ خطے کے ممالک کے لیے ایک مثال ہے، جہاں توانائی کی منتقلی کو پالیسی سطح پر مربوط انداز میں فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس مکالمے میں شریک سفارتی نمائندوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خطے میں موسمیاتی خطرات کے مقابلے کے لیے مشترکہ فریم ورک تشکیل دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اختتام پر شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان عالمی سطح پر موسمیاتی مباحث میں فعال کردار ادا کرتا رہے گا، اور آنے والے COP-30 اجلاس میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے پالیسی اور عملی اقدامات پیش کرے گا۔