سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے خلاف 16 ارب روپے کے انکم ٹیکس ریفنڈ کیس میں مقدمہ درج

former-fbr-chairman-shabbar-zaidi-fia-case

یوتھ ویژن نیوز : (واصب ابراہیم غوری سے) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اینٹی کرپشن سرکل نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین شبر زیدی کے خلاف 16 ارب روپے سے زائد کے مبینہ غیر مجاز انکم ٹیکس ریفنڈ کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق یہ مقدمہ انسدادِ بدعنوانی ایکٹ 1947 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے، جس میں ایف بی آر کے بعض اہلکاروں، بینک انتظامیہ اور متعلقہ کمپنیوں کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق درج کی گئی ایف آئی آر (نمبر 91/2025) میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ بطور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے مئی 2019 سے جنوری 2020 کے درمیان مختلف کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کو غیر مجاز ادائیگیاں کیں۔ رپورٹ کے مطابق ان کمپنیوں میں تین بینک، دو سیمنٹ ساز کمپنیاں اور ایک کیمیکل کمپنی شامل ہے، جو ان کی بطور چیئرمین ایف بی آر تعیناتی سے قبل ان کی نجی آڈٹ فرم کے کلائنٹس رہ چکے تھے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شبر زیدی نے ایف بی آر کے بعض افسران کے ساتھ ملی بھگت سے 16 ارب روپے سے زائد کے انکم ٹیکس ریفنڈز کی منظوری دی، جو قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی تھی۔ یہ رقم مختلف کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی، جبکہ ان ادائیگیوں کے لیے مطلوبہ منظوری اور فنانشل آڈٹ کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ تفتیشی رپورٹ کے مطابق شبر زیدی کی سربراہی میں اس عرصے کے دوران کئی ریفنڈ فائلز کو غیر معمولی ترجیحی بنیادوں پر نمٹایا گیا۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق تفتیش کے دوران حاصل شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ کمپنیاں شبر زیدی کی نجی فرم سے وابستہ تھیں اور بطور چیئرمین ایف بی آر ان کمپنیوں کو ریفنڈ جاری کرنا مفادات کے ٹکراؤ (Conflict of Interest) کے زمرے میں آتا ہے۔ ایف آئی اے نے کہا ہے کہ مقدمے میں شبر زیدی کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کے متعلقہ افسران اور بینکوں کے اعلیٰ عہدیداران کو بھی نامزد کیا گیا ہے تاکہ پورے نیٹ ورک کی شفاف تحقیقات کی جا سکیں۔

درج شدہ مقدمے کے مطابق شبر زیدی 10 مئی 2019 سے 6 جنوری 2020 تک بطور چیئرمین ایف بی آر تعینات رہے۔ ایف آئی اے کے مطابق اس عرصے کے دوران ان کے دستخط سے منظور شدہ ادائیگیوں میں متعدد بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں، جنہیں دستاویزی شواہد کے ذریعے تفتیشی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن سرکل کے مطابق تحقیقات کے دوران ایک مصدقہ ذریعہ رپورٹ کے ذریعے یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ انکم ٹیکس ریفنڈ کے طور پر جاری کی گئی یہ رقم قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے کا باعث بنی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مقدمے کی درج ہونے کے بعد ایف آئی اے نے سابق چیئرمین ایف بی آر کو طلبی نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ تفتیشی ٹیم نے ایف بی آر کے متعلقہ افسران سے ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ مقدمے میں نامزد کمپنیوں اور بینکوں سے بھی تفصیلات مانگی گئی ہیں تاکہ ادائیگیوں کے طریقۂ کار اور ریفنڈ منظوری کے مراحل کا مکمل ریکارڈ حاصل کیا جا سکے۔

تحقیقات کے مطابق ان ادائیگیوں کی منظوری کے وقت نہ صرف ضابطہ کار کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ ایف بی آر کے اندرونی آڈٹ سسٹم کو بھی بائی پاس کیا گیا۔ ایف آئی اے کے مطابق مقدمہ درج کرنے سے قبل ابتدائی انکوائری مکمل کی گئی جس میں شواہد کی بنیاد پر کارروائی کی اجازت مجاز اتھارٹی سے لی گئی۔ اینٹی کرپشن سرکل کے افسران کا کہنا ہے کہ کیس کو شفاف اور غیر جانبدارانہ انداز میں آگے بڑھایا جائے گا اور کسی بھی فرد کو بغیر ثبوت کے نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

سیاسی و کاروباری حلقوں نے ایف آئی اے کی کارروائی کو اہم پیش رفت قرار دیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ اس کیس سے ایف بی آر کے اندر جاری مبینہ بدعنوانی کے نظام کو بے نقاب کرنے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب شبر زیدی کی جانب سے اب تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ جلد اپنے وکلا کے ذریعے قانونی موقف پیش کریں گے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ مقدمہ نہ صرف ایک بڑے مالی اسکینڈل کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ ادارہ جاتی احتساب کے نظام پر بھی نئے سوالات اٹھاتا ہے۔ اگر الزامات درست ثابت ہوئے تو یہ پاکستان کی مالیاتی تاریخ کے چند بڑے ٹیکس ریفنڈ اسکینڈلز میں شمار کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں