فرزندِ صحرائی نے لندن میں پاکستان کا نام روشن کردیا ، ایمپیریل کالج لندن سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرلی۔ اہلیان بہاولپور کی خوشی دیدنی
یوتھ ویژن نیوز: صحرائی خطے سے تعلق رکھنے والے ایک عام مگر غیر معمولی عزم رکھنے والے نوجوان، ڈاکٹر عبدالرحمن علی رومی، نے لندن میں پاکستان کا نام روشن کردیا ہے۔ ایمپیریل کالج لندن جیسے دنیا کے مہنگے اور ممتاز تعلیمی ادارے سے امتیاز کے ساتھ ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کر کے اس نوجوان نے بہاولپور سمیت پورے ملک کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ رائل البرٹ ہال میں ہونے والی شاندار تقریبِ تقسیمِ اسناد (Convocation) میں ڈاکٹر عبدالرحمن کو یونیورسٹی کے ”ٹاپ 10 ڈاکٹروں “میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ تقریب کے مناظر براہِ راست بین الاقوامی چینلز پر نشر ہوئے، اور اس لمحے کو اہلیانِ بہاولپور نے فخر اور مسرت کے جذبات کے ساتھ دیکھا۔
ڈاکٹر عبدالرحمن علی رومی اس وقت برطانیہ کے محکمہ نیشنل ہیلتھ سروسز (NHS) میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کا تعلق بہاولپور کے ایک صحرائی خاندان سے ہے، جہاں وسائل کی کمی کے باوجود علم اور محنت کا جذبہ نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ ان کے والد، ڈاکٹر ذوالفقار علی رحمانی، جو خود محکمہ صحت بہاولپور میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر رہ چکے ہیں، نے اپنے بیٹے کی کامیابی کو ”اللہ کا کرم اور والدین کی دعاؤں کا صلہ” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ “میرے بیٹے نے محنت، صبر اور یقین کے ساتھ یہ منزل حاصل کی — یہ لمحہ فخر کا نہیں بلکہ شکر کا ہے۔“
ایمپیریل کالج لندن میں تعلیم کے دوران ڈاکٹر عبدالرحمن کو دنیا کے ایک معروف کارڈیالوجسٹ کے ساتھ attachment کا موقع ملا۔ اس دوران دل کے ایک نایاب مرض پر جاری تحقیق میں ان کی غیر معمولی صلاحیتوں نے ماہرین کو متاثر کیا۔ کنسلٹنٹ کارڈیالوجسٹ نے انہیں اپنی ریسرچ ٹیم کا حصہ بنایا، اور جب یہ تحقیق مکمل ہوئی تو اس ریسرچ پیپر میں ڈاکٹر عبدالرحمن کا نام بطور مصنف شامل کیا گیا۔ یونیورسٹی نے ان کی کارکردگی کے اعتراف میں چوتھے سال ہی ”Bachelor in Cardiovascular Diseases“ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔
ایمپیریل کالج لندن کا ایم بی بی ایس پروگرام چھ سالہ ہے، جس میں کلینیکل ٹریننگ پہلے سال سے ہی شروع ہو جاتی ہے، جب کہ پاکستان میں یہ تربیت تیسرے سال سے شروع ہوتی ہے۔ یہ فرق عالمی معیار اور تحقیقاتی نظام کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ والد ڈاکٹر ذوالفقار علی رحمانی نے لکھا کہ ”جب میں نے میڈیکل آفیسر کے طور پر سرکاری ملازمت شروع کی تھی تو والد مرحوم سیٹھ عبدالرحمن زرگر نے نیا یاماہا موٹر سائیکل تحفے میں دیا تھا۔ آج میں نے اپنے بیٹے کو برطانوی محکمہ صحت میں سروس شروع کرنے پر BMW 4 Series Royal Saloon کار تحفے میں دی۔ یہ محض گاڑی نہیں بلکہ ایک خواب کی تعبیر ہے۔“
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ”میں نے چھوٹے بیٹے سے وعدہ کیا ہے کہ جب وہ ایم بی بی ایس کرے گا تو رولز رائس فینٹم تحفے میں دوں گا — بشرطیکہ زندہ رہا۔ والدین ہمیشہ اولاد کو اپنے سے زیادہ کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں، اور یہ لمحہ اسی خواہش کی تکمیل ہے۔ الحمدللہ، ایک بیٹی انجینئر، دوسری ڈاکٹر، تیسری قانون کی طالبہ ہے — یہ سب اللہ کے فضل اور محنت کی برکت ہے۔“
ڈاکٹر ذوالفقار علی رحمانی کے مطابق ایک وقت ایسا بھی تھا جب بچوں کی فیس ادا کرنا مشکل تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ “2001 سے 2006 کے دوران بہاولپور میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے میں نے ان والدین میں آواز بلند کی جو گرمیوں میں اسکولوں کی فیس کے خلاف احتجاج کرتے تھے۔ اس وقت کسی نے نہ سنی، مگر ایک دہائی بعد عدالتِ عظمیٰ نے اسی مؤقف کو قانون بنا دیا۔”
انہوں نے بتایا کہ 2006 میں حالات کے پیشِ نظر سعودی عرب ہجرت کا فیصلہ کیا، جہاں فیملی کے ہمراہ نئی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”صحرائی عادت کے تحت جیسے چولستانی پانی کی تلاش میں سفر کرتے ہیں، ہم نے بھی روزی کی تلاش میں ہجرت کی۔ 2007 میں حجِ اکبر کے دوران پورا خاندان حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد واپس آیا۔“
ڈاکٹر ذوالفقار لکھتے ہیں کہ ”جب میں نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کو حج کے دوران کندھوں پر اٹھایا تو دل نے بے ساختہ کہا: فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ۔ مگر زندگی کی آزمائشیں ختم نہ ہوئیں — گاڑی، موٹر سائیکل اور نایاب کتابوں کا ذخیرہ چوری ہو گیا۔ کتابوں کی یاد آج بھی تازہ ہے۔“
تاہم قسمت نے جلد ہی رخ بدل دیا۔ 2008 میں برطانوی حکومت نے ان کی خدمات اور ذہانت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں مستقل رہائش (Permanent Residency) کی پیشکش کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ” ترقی یافتہ ممالک اہل اور باصلاحیت افراد کو’ Brain Gain‘ کے تحت خوش آمدید کہتے ہیں، جب کہ ہمارے ملک میں ہنرمندوں کو مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔ خوشی سے کوئی وطن نہیں چھوڑتا، مگر کبھی حالات مجبور کر دیتے ہیں۔“
ڈاکٹر ذوالفقار کے چھوٹے بھائی، پروفیسر ڈاکٹر نصراللہ رحمانی، کو آسٹریلیا کی حکومت نے بطور سائنس دان مستقل سکونت کی پیشکش کی تھی، جب انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کے دوران ایک نئی اینٹی بایوٹک دریافت کی۔ یوں ایک بھائی شمالی کنارے (لندن) اور دوسرا جنوبی کنارے (آسٹریلیا) پر آباد ہو گیا۔
انہوں نے آخر میں لکھا کہ “یوکے اور یورپ جیسے خطے صحرائی محنت کشوں کو عزت، سہولت اور رزقِ حلال کے بے شمار مواقع فراہم کرتے ہیں۔ جنہوں نے ریگزار میں جنم لیا، وہ اپنی محنت سے دنیا کے فلک بوس میناروں کو مسخر کر سکتے ہیں۔ فرزندِ صحرائی عبدالرحمن نے یہی ثابت کر دیا — Well done my son.