خواجہ آصف کا واضح انتباہ: اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو ’ کھلی جنگ‘ کا آپشن موجود ہے

Defence Minister Khawaja Asif

یوتھ ویژن نیوز : (واصب ابراہیم سے) وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ افغان طالبان رجیم کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات حل نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کے لیے ’کھلی جنگ‘ کا آپشن دستیاب رہے گا، اور اس صورتِ حال کے تقاضوں کے مطابق ردِ عمل اختیار کیا جائے گا۔

ایک ملکی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے بتایا کہ اگرچہ پاکستانی حکومت مذاکرات کی راہ کو ترجیح دیتی ہے اور دونوں طرف سے پیش کردہ شرائط کا جائزہ لیا جائے گا، تاہم کابل کی جانب سے آئندہ پیش کئے گئے مطالبات اگر ناقابلِ قبول ثابت ہوئے تو مسلح آپشنز بھی زیرِ بحث آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے طویل عرصے تک افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی ہے اور پیچیدہ علاقائی حالات میں تحمل و برداشت کا ثبوت دیا، مگر جب ملک کی سلامتی اور سرحدی امن کو خطرات لاحق ہوں تو دفاعی اقدامات لازمی قرار پاتے ہیں۔

مزید پڑھیں : افغان طالبان کی درخواست پر 48 گھنٹے کیلئے جنگ بندی ، پاکستان اور کابل کے درمیان عارضی سیز فائر پر اتفاق

وزیرِ دفاع نے اپنے خطاب میں 40 سالہ مہمان نوازی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے شراکتِ عمل اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان مہاجرین کا احترام کیا، مگر ان حساس تعلقات کے باوجود خطے میں بعض واقعات نے پاکستان کو مختلف چیلنجز کا سامنا کروایا، اور ان کی روشنی میں حکومت کو اپنی دفاعی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی پڑی۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ گذشتہ کچھ عرصے میں پاک بھارت اور خطے کے بعض عناصر کے مابین تناؤ نے پیچیدہ صورتِ حال پیدا کی، جن میں ’’پراکسی‘‘ نوعیت کی سرگرمیوں کا کردار بھی سامنے آیا، اور ان حالات نے سکیورٹی کے اداروں کو چوکس رہنے پر مجبور کیا ہے۔ دفاعی حکام کے بقول، پاکستان نے سرحدی حفاظتی نظام میں بہتری لانے کے لیے جوانوں کی قربانیوں اور سخت نگرانی کے باعث اب تک مثبت نتائج حاصل کیے ہیں اور اُن کے دعوے کے مطابق پاک افغان سرحد پر گزشتہ پانچ روز سے کوئی بڑا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، جو بقول وزیرِ دفاع ’’جوانوں کی بلند ہمت اور پیشہ ورانہ کارکردگی‘‘ کا نتیجہ ہے۔

اس موقع پر خواجہ آصف نے واضح کیا کہ مذاکراتی میز پر اگر افغانستان کی جانب سے پیش کی گئی شرائط قابلِ قبول اور قومی سلامتی کے تقاضوں کے مطابق ہوں تو پاکستان مفاہمت کا راستہ اختیار کرے گا، ورنہ وہ اختیارات جو بین الاقوامی قوانین اور قومی دفاعی پالیسی کے تحت دستیاب ہیں، اُنہیں بروئے کار لانے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی تحفظ، انسدادِ دہشت گردی اور سوشل استحکام کے لیے ادارے مکمل متحرک ہیں اور کسی بھی جارحیت یا خطرے کا جواب مؤثر انداز میں دیا جائے گا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیرِ دفاع کا یہ بیان اس خطے کی خفیف کشیدگی اور سکیورٹی حساسیت کی عکاسی کرتا ہے، اور یہ پیغام دونوں فریقین کے لیے واضح تنبیہ ہے کہ مذاکراتی عمل اور عسکری آپشنز دونوں کو ملکی مفاد کے تحت تول کر دیکھا جائے گا۔ خواجہ آصف کے بیان نے علاقائی اور عالمی سطح پر بھی موجیں پیدا کی ہیں کیونکہ افغان معاملہ صرف دوطرفہ نہ رہ کر خطے کی سلامتی، مہاجرین کے حقوق اور کثیرالجہتی تعلقات سے جڑا ہوا ہے؛ اس لیے تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ممکنہ عسکری کشمکش کے سیاسی، اقتصادی اور انسانی نتائج کو سامنے رکھ کر تمام اسٹیک ہولڈرز ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ حکومتی حلقوں نے کہا ہے کہ پاکستان مذاکراتی ڈائیلاگ کو فروغ دینے کے لیے سفارتی اور عسکری چینلز دونوں کو یکساں طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ کشیدگی مگر پرامن انداز میں حل کی جاسکے، تاہم خواجہ آصف کی ہدایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دفاعی تیاری میں کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ آخر میں وزیرِ دفاع نے قوم کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ سکیورٹی ادارے اور مسلح افواج سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار ہیں اور ملکی سالمیت کے تحفظ کے لیے ہر ضروری اقدام اٹھائیں گے، جبکہ مذاکرات کے مثبت حل کے لیے حکومتی سطح پر بھی کوششیں جاری رہیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں