ایک نسل دو زمانے

90s nostalgia in Pakistan

خصوصی تحریر : بقاء المحسن

نوّے کی دہائی کے افراد جو روایتی دنیا اور ڈیجیٹل دور کے درمیان کھڑے ہیں — ایک نسل، دو زمانے کا عکس

دنیا کی تاریخ میں بہت سی نسلیں آئیں اور گزر گئیں، مگر کچھ نسلیں ایسی ہوتی ہیں جو زمانوں کی حدیں عبور کر جاتی ہیں۔ ان کا وجود ایک صدی میں شروع ہو کر دوسری صدی میں سانس لیتا ہے۔ وہ نہ صرف دو ادوار کی گواہ ہوتی ہیں بلکہ دو طرزِ حیات، دو فکری زاویوں اور دو انسانی معنویتوں کی نمائندہ بھی بن جاتی ہیں۔ آج ہم جس نسل کی بات کر رہے ہیں — وہی نسل ہے جو گزشتہ صدی کے آخری تین عشروں میں پیدا ہوئی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بچپن میں روایتی دنیا کی خوشبو کو محسوس کیا اور جوانی میں ڈیجیٹل انقلاب کی تیزی کو قریب سے دیکھا۔ یہ نسل وقت کے اس سنگم پر کھڑی ہے جہاں روایت اپنی آخری سانس لے رہی تھی اور جدت نے پہلی آنکھ کھولی تھی۔

یہ نسل ماضی کی سادہ دنیا اور موجودہ پیچیدہ دنیا کے بیچ ایک زندہ پل ہے۔ ان کے بچپن میں صحنوں میں کھیلنے، دوستوں کے ساتھ شامیں گزارنے، اور خط لکھ کر جذبات بانٹنے کی روایت تھی۔ ان کے گھروں میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی، ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈر تھے، جہاں خبر سننے کے لیے لوگ مخصوص وقت کا انتظار کرتے۔ مگر یہی نسل اپنی جوانی میں موبائل فون، انٹرنیٹ، ای میل اور سوشل میڈیا کے عہد میں داخل ہوئی — جہاں لمحے میں دنیا بدلتی ہے اور رابطے لمحوں میں مکمل ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے خط کی محبت کو ڈیجیٹل پیغام میں ڈھلتے دیکھا، اور احساس کے لمس کو "ایموٹی کن” میں بدلتے محسوس کیا۔

ڈیجیٹل دور کی نسل ماضی کی سادگی اور مستقبل کی تیزی کا سنگم

اس نسل کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے دنیا کو دو زاویوں سے دیکھا۔ ایک زاویہ وہ جس میں زندگی دھیرے بہتی تھی، اور دوسرا وہ جہاں رفتار نے سکون کی جگہ لے لی۔ ان کے بچپن میں علم کا مطلب کتاب سے وابستگی تھا، اور سیکھنے کا مطلب بزرگوں سے گفتگو۔ آج کے بچوں کے لیے علم گوگل کی سرچ میں ہے اور رہنمائی مصنوعی ذہانت کے تجزیے میں۔ مگر اس نسل نے دونوں تجربے کیے۔ وہ جانتی ہے کہ کتاب کی خوشبو اور اسکرین کی چمک میں کیا فرق ہے، اور یہ فرق ہی اس کی انفرادیت ہے۔

یہ نسل انسانی تعلقات کی گہرائی کو بھی سمجھتی ہے اور ڈیجیٹل روابط کی وسعت کو بھی۔ ان کے زمانے میں دوست وہ ہوتے تھے جو گلی کے کونے میں ملتے تھے، نہ کہ صرف اسکرین پر نمودار ہونے والے نام۔ ان کے لیے دوستی ایک احساس تھی، ایک رشتہ، ایک عہد — نہ کہ محض ایک "ریکویسٹ ایکسیپٹ”۔ مگر یہی نسل آج بھی سوشل میڈیا پر اپنے پرانے دوستوں سے جڑی ہے، اپنی یادوں کو ڈیجیٹل دنیا میں محفوظ کر رہی ہے۔ یہ دو مختلف دنیاؤں کو جوڑنے والی نسل ہے — وہ جو خط کی زبان بھی سمجھتی ہے اور چیٹ کی رفتار بھی۔

یہ نسل صرف سادہ اور جدید دور کے بیچ پھنسی نہیں، بلکہ دونوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اس نے ماضی کی اخلاقیات کو بھی اپنے اندر محفوظ رکھا اور حال کی تکنیکی چمک کو بھی اپنایا۔ اس کے اندر ایک طرف صبر، شکر اور برداشت کی وہ روایتیں ہیں جو اس کے والدین سے منتقل ہوئیں، اور دوسری طرف تیزی، معلومات، اور جدت کی وہ طلب ہے جو اکیسویں صدی کے ماحول نے دی۔ اس نسل کے لوگ اب بھی کتابوں کے صفحات پلٹتے ہیں مگر ساتھ ہی خبرنامے موبائل پر بھی پڑھتے ہیں۔ وہ اب بھی بزرگوں کی نصیحت کو اہم سمجھتے ہیں مگر یوٹیوب سے بھی علم حاصل کرتے ہیں۔ یہی وہ امتزاج ہے جو اس نسل کو دنیا کی سب سے منفرد اور قیمتی نسل بناتا ہے۔

یہ نسل اپنے بچپن کے صحنوں سے نکل کر اب ڈیجیٹل میدانوں میں آ گئی ہے۔ مگر ان کے دلوں میں اب بھی وہ پرانے زمانے کی سادگی بسی ہوئی ہے۔ جب ایک چائے کی پیالی میں زندگی کی باتیں سمٹ آتی تھیں، جب خط کے انتظار میں دن گزر جاتے تھے اور ملاقات کے لمحے دل کی دھڑکن بن جاتے تھے۔ آج کی دنیا میں ایسے لمحات شاید ناپید ہو گئے ہیں، مگر اس نسل کے لوگوں کے شعور میں وہ اب بھی زندہ ہیں۔ یہی شعور انہیں نئی نسل سے مختلف اور گہرا بناتا ہے۔

یہ نسل محض تکنیکی تبدیلی کی گواہ نہیں، بلکہ انسانی احساس کی تبدیلی کی شاہد بھی ہے۔ اس نے دیکھا کہ کس طرح مشین نے انسان کے وقت کو قیمتی بنایا مگر دل کے سکون کو کم کر دیا۔ اس نے محسوس کیا کہ آسانیوں نے زندگی کی رفتار تو بڑھا دی، مگر جذبات کی گہرائی کو کم کر دیا۔ اس نے پرانے زمانے کے آہستہ چلتے وقت میں معنی تلاش کیے، اور نئے زمانے کے تیز رفتار وقت میں مقصد کھوجا۔ وہ جانتی ہے کہ ترقی کا مطلب صرف رفتار نہیں بلکہ احساس کا تسلسل ہے۔

یہ نسل دنیا کے مختلف خطوں میں ایک ہی جذبے سے جیتی رہی۔ چاہے وہ ایشیا کے گاؤں ہوں، یورپ کے شہر یا امریکا کے ہائی ویز — ہر جگہ اس نسل نے تبدیلی کی ہوا کو محسوس کیا۔ اس کے اندر وہ وسعت ہے جو جغرافیہ سے نہیں بلکہ تجربے سے پیدا ہوئی۔ یہ نسل عالمی ہے، کیونکہ اس کے سامنے پوری دنیا ایک گاؤں کی مانند سمٹ آئی۔ مگر اس کے دل میں اب بھی وہی انسانی احساس، رشتوں کی قدر اور روایت کی حرارت زندہ ہے۔ یہی توازن اسے باقی نسلوں سے ممتاز کرتا ہے۔

اب جب یہ نسل درمیانی عمر میں پہنچ چکی ہے، تو یہ نہ صرف اپنی اولاد کے لیے ایک رہنما ہے بلکہ اپنے ماضی کی نمائندہ بھی۔ یہ نئی نسل کو بتا رہی ہے کہ دنیا کو سمجھنے کے لیے رفتار نہیں، بصیرت چاہیے۔ یہ انہیں سمجھا رہی ہے کہ سکرین کی روشنی میں دل کی گرمی کو ماند نہ ہونے دو۔ یہ نسل اب ایک پیغام بن گئی ہے — ایک ایسی یاد دہانی کہ ترقی کا مطلب اپنی جڑوں سے کٹ جانا نہیں بلکہ ان جڑوں کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔

اور بالآخر اگر اس نسل کو کسی علامت میں ڈھالا جائے، تو وہ ایک گھر کی چار دیواری ہے۔ ایک ایسی چار دیواری جو ایک سمت میں پرانے وقت کی دیواروں سے جڑی ہے اور دوسری سمت میں نئی دنیا کی کھڑکیوں سے۔ یہ نسل اسی دیوار کے سائے میں کھڑی ہے — اندر بھی جھانک رہی ہے، باہر بھی۔ اس نے گزرتی صدی کے تجربات کو اپنے اندر سمویا ہے اور آنے والی صدی کی جھلک کو بھی محسوس کیا ہے۔ یہ روایتوں کی امین ہے، تہذیبوں کی محافظ ہے، اور ٹیکنالوجی کے دور کی پہلی گواہ بھی۔ یہی وہ نسل ہے جو ماضی کی صداقت کو اور مستقبل کی حقیقت کو ایک ساتھ اپنے وجود میں لیے کھڑی ہے۔ یہی نسل آنے والے انسان کو یہ سمجھانے کی ذمہ دار ہے کہ انسان کی اصل پہچان اس کی رفتار نہیں، بلکہ اس کا احساس ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ نسل دو صدیوں کی محافظ اور مبلغ ہے — گزرے ہوئے زمانے کو سمجھنے والی بھی، اور آنے والے زمانے کو معنی دینے والی بھی۔ یہ وہ نسل ہے جو روایت کے صحن میں کھڑی ہے اور ٹیکنالوجی کی کھڑکی سے باہر جھانک رہی ہے۔ یہی اس کی عظمت ہے — کہ یہ صرف ایک نسل نہیں، بلکہ انسانی تاریخ کے دو زمانوں کی زندہ داستان ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں