بارسلونا کا ایک خوبصورت سبق
خصوصی تحریر برائے ناموار کالم نگازوصحافی رؤف کلاسرا
سپین کے خوبصورت شہر بارسلونا میں آکر پہلی بار احساس ہوا کہ سفر صرف فاصلہ طے کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ انسان کے اندر چھپے جمود کو توڑنے اور سوچ کو وسعت دینے کا ایک عمل ہے۔ جب انسان برسوں ایک ہی جگہ رہتا ہے تو اس کے خیالات ایک جگہ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ساکت اور بدبودار ہو جاتے ہیں۔ سفر انسان کے ذہن کو تازگی بخشتا ہے، اسے نئے نظریات، نئی ثقافتوں اور مختلف سوچ رکھنے والے لوگوں سے آشنا کرتا ہے۔ ایک محدود ماحول میں رہنے والا شخص خود کو سب سے بہتر سمجھنے لگتا ہے، لیکن جب وہ دنیا کی وسعت دیکھتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ سیکھنے کے لیے کتنا کچھ باقی ہے۔
میں ہمیشہ سے سفر میں سستی دکھانے والا شخص رہا ہوں۔ اپنے ملک، اپنے گھر اور اپنے لوگوں کے ساتھ رہنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ دس دنوں سے زیادہ باہر رہنا میرے لیے مشکل ہو جاتا ہے، مگر ان لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جو بہتر زندگی کی تلاش میں اپنے وطن سے ہزاروں میل دور جا بسے ہیں۔ وہ چاہے جتنا بھی وقت بیرونِ ملک گزار لیں، ان کا دل ہمیشہ پاکستان کے گلی کوچوں میں سانس لیتا رہتا ہے۔ ہر اوورسیز پاکستانی اپنے گاؤں، اپنے گھر، اور اپنے بچپن کے دنوں کو ایسے یاد کرتا ہے جیسے وہ کل کی بات ہو۔
میرے جیسے لوگ شاید اپنے کمفرٹ زون سے نکلنے سے گھبراتے ہیں۔ ہمیں نئی چیزوں سے ڈر لگتا ہے، یہاں تک کہ کسی نئے ریسٹورنٹ میں نیا کھانا آزمانے سے بھی ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔ ہم وہی چیزیں دہراتے ہیں جن سے واقف ہوتے ہیں۔ لیکن جب انسان سفر پر نکلتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں خوبصورتی، محبت اور تجربے کی کتنی گنجائش ہے۔ آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو اتنا قریب کر دیا ہے کہ اب آپ کہیں بھی ہوں، ویڈیو کال یا زوم کے ذریعے اپنے ملک سے جڑے رہ سکتے ہیں۔
جب آپ بیرونِ ملک جاتے ہیں تو پاکستانی کمیونٹی آپ کو محبت اور عزت دیتی ہے۔ وہ پاکستان کے حالات جاننا چاہتے ہیں، آپ سے باتیں کرتے ہیں، اپنے وطن کو یاد کرتے ہیں۔ بارسلونا میں مجھے کئی ایسے پاکستانی ملے جنہوں نے میری سوچ بدل دی۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے امتیاز صاحب سے ملاقات نے مجھے متاثر کیا۔ وہ ایک سنجیدہ، سمجھدار اور محنتی انسان ہیں۔ ان سے گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ بیرونِ ملک بسنے والے پاکستانی سیاست اور ملکی حالات کو کتنی گہرائی سے سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا نے سچ اور جھوٹ کو اس طرح ملایا ہے کہ لوگوں نے پاکستان کے بارے میں ایک منفی تصور بنا لیا ہے، حالانکہ کوئی بھی ملک مسائل سے خالی نہیں ہوتا۔
یہ بات درست ہے کہ ہر جمہوری معاشرے میں اختلافِ رائے ہوگا، ہر شخص کے پاس اپنی بات کہنے کا حق ہوگا۔ اگر لوگ اختلاف کو دشمنی سمجھنے لگیں تو معاشرہ تقسیم ہو جاتا ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانی اکثر اپنے ملک کے حالات سے فکرمند رہتے ہیں، کیونکہ وہ جس ترقی یافتہ ماحول میں رہتے ہیں، اسی معیار کو اپنے وطن کے لیے بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش فطری ہے اور ان کی محبتِ وطن کی دلیل بھی۔
بارسلونا میں میری ملاقات ایک اور شخصیت سے ہوئی — جھنگ سے تعلق رکھنے والے نواز سیال۔ وہ ان پاکستانیوں میں سے ہیں جنہوں نے نہ صرف خود کامیابی حاصل کی بلکہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ وہ 1992ء میں بارسلونا آئے اور آج ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں۔ لیکن ان کی اصل شناخت ان کی عاجزی، سادگی اور انسان دوستی ہے۔ ان کے ہاں آنے والا ہر پاکستانی چاہے قانونی کاغذات رکھتا ہو یا نہیں، انہیں اپنے کام میں شامل کر لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ ان کا دروازہ ہر ضرورت مند کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔
تین دن ان کے ساتھ گزار کر احساس ہوا کہ اصل عظمت دولت یا شہرت میں نہیں، بلکہ عاجزی میں ہے۔ ان کی گفتگو میں کبھی برتری یا غرور نہیں پایا گیا۔ وہ خاموش مزاج اور کم گو شخص ہیں، لیکن ان کی شخصیت میں سچائی، محبت اور مروت جھلکتی ہے۔ ان کی مثال سے یہ سبق ملتا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی دولت انسان کا اخلاق اور رویہ ہے، کیونکہ لوگ آپ کے مال و دولت کو نہیں بلکہ آپ کی انسانیت کو یاد رکھتے ہیں۔
بارسلونا کا یہ سفر میرے لیے روحانی تجربہ ثابت ہوا۔ یہاں کے پاکستانیوں کی محنت، ایثار، اور وطن سے محبت نے دل کو چھو لیا۔ میں نے سیکھا کہ سفر انسان کے اندر کا زنگ صاف کر دیتا ہے، اسے عاجزی سکھاتا ہے، اور یہ احساس دلاتا ہے کہ زندگی کا اصل حسن دوسروں سے جڑنے، سیکھنے، اور بانٹنے میں ہے۔