سپریم جوڈیشل کونسل کا بڑا فیصلہ ! ججز کیخلاف 3 شکایات پر کارروائی، کوڈ آف کنڈکٹ میں اہم ترامیم منظور

یوتھ ویژن نیوز : (ایڈوکیٹ واصب ابراہیم سے) سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کے خلاف موصول ہونے والی شکایات پر غور کے بعد 74 میں سے 3 شکایات پر مزید کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں اہم ترامیم کی منظوری دے دی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت منعقد ہوا جس میں ججز کے خلاف شکایات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں مجموعی طور پر 74 شکایات زیر غور آئیں جن میں سے 70 کو مسترد کردیا گیا، ایک شکایت پر کارروائی مؤخر کی گئی جبکہ 3 شکایات پر مزید کارروائی کی منظوری دی گئی۔ کونسل کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اجلاس کے پہلے مرحلے میں 67 شکایات کا جائزہ لیا گیا جن میں سے 65 کو داخل دفتر کردیا گیا، ایک شکایت پر کارروائی مؤخر کی گئی اور ایک پر مزید کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کے دوسرے مرحلے میں مزید 7 شکایات کا جائزہ لیا گیا جن کے لیے کونسل کی تشکیل نو کی گئی۔ اعلامیے کے مطابق جسٹس سرفراز ڈوگر نے ان شکایات پر کارروائی سے خود کو الگ کرلیا جس کے بعد چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کو کونسل میں شامل کیا گیا۔

دوسرے مرحلے میں 7 میں سے 5 شکایات کو داخل دفتر جبکہ 2 پر مزید کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اس طرح دونوں مراحل میں مجموعی طور پر 74 شکایات کا جائزہ مکمل کیا گیا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس کے دوران ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں ترامیم کی منظوری بھی دی گئی جن کے مطابق اب کوئی جج ایسا کیس نہیں سن سکے گا جس میں فریق یا وکیل سے اس کا ذاتی تعلق ہو۔ ججز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کسی عوامی تنازع یا سیاسی نوعیت کے مسئلے پر رائے دینے سے اجتناب کریں اور عوامی فورمز پر ایسی گفتگو سے گریز کریں جو عدلیہ کی غیرجانبداری یا ادارہ جاتی نظم و ضبط پر اثر ڈالے۔ ترمیم شدہ کوڈ کے مطابق کسی جج پر عوامی سطح پر الزام لگنے کی صورت میں وہ تحریری طور پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی ججز کمیٹی کو اطلاع دے گا جو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججز بھی شامل ہوں گے جو الزام کا ادارہ جاتی طور پر جواب دیں گے۔ اعلامیے کے مطابق کوڈ آف کنڈکٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ کوئی جج خود یا کسی اور کے ذریعے مقدمہ بازی میں ملوث نہیں ہوگا اور نہ ہی تجارتی یا قیاس آرائیوں پر مبنی لین دین کا حصہ بنے گا۔ ججز کو صرف قریبی رشتہ داروں یا دوستوں سے معمولی نوعیت کے تحائف قبول کرنے کی اجازت ہوگی۔

مزید یہ کہ کسی وکیل کو کسی جج کو ذاتی حیثیت میں کھانے کی دعوت دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی جج کو کسی کانفرنس یا تقریب میں شرکت کی ذاتی دعوت موصول ہو تو وہ دعوت دینے والے کو اپنے چیف جسٹس کے ذریعے باضابطہ دعوت نامہ بھیجنے کا کہے گا۔ کوڈ میں یہ بھی شامل کیا گیا کہ اگر ہائیکورٹ کے کسی جج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جائے تو وہ فوری طور پر اپنے چیف جسٹس ہائیکورٹ، چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں کو تحریری طور پر آگاہ کرے گا، جبکہ سپریم کورٹ کے جج پر دباؤ ڈالنے کی صورت میں یہی طریقہ کار اپنایا جائے گا۔ اس ضمن میں جج کی شکایت پر کمیٹی 15 روز کے اندر فیصلہ کرے گی۔ عدالتی ماہرین کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے ججز کے خلاف کارروائی اور کوڈ آف کنڈکٹ میں ترامیم عدلیہ کے اندر احتسابی عمل کو مزید شفاف بنانے کی سمت ایک بڑا قدم ہیں۔ ان ترامیم کا مقصد عدلیہ کی خود مختاری، غیر جانبداری اور ادارہ جاتی ساکھ کو برقرار رکھنا ہے تاکہ عوام کا اعتماد عدالتی نظام پر مزید مضبوط ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں