مڈغاسکر میں نئی فوجی قیادت کا عروج: کرنل مائیکل رینڈریانرینا نے بطور صدر حلف اٹھا لیا

یوتھ ویژن نیوز : افریقی جزیرہ ملک مڈغاسکر میں عوامی احتجاج، سیاسی بحران اور فوجی مداخلت کے بعد کرنل مائیکل رینڈریانرینا نے بطور صدر حلف اٹھا لیا ہے۔ دارالحکومت انتاناناریوو میں ہونے والی اس تقریب میں اعلیٰ فوجی افسران، ملکی سیاسی رہنماؤں، نوجوانوں کی تحریک کے نمائندوں اور غیر ملکی وفود نے شرکت کی۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق مڈغاسکر میں حالیہ ہفتوں کے دوران “جنریشن زی” کے زیر قیادت ہونے والے پُرتشدد احتجاج نے حکومت کی بنیادیں ہلا دیں، جس کے نتیجے میں صدر اینڈری راجویلینا ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ پارلیمنٹ نے آئینی عمل کے تحت صدر کے خلاف مواخذے کی کارروائی کرتے ہوئے ان پر ’’ذمہ داری سے فرار‘‘ کا الزام عائد کیا اور انہیں عہدے سے برطرف کر دیا۔ اس کے بعد قائم ہونے والی عبوری فوجی کونسل نے اقتدار سنبھالتے ہی قومی اسمبلی کے سوا باقی تمام پارلیمانی ادارے تحلیل کر دیے۔ اس عبوری کونسل کے سربراہ کرنل مائیکل رینڈریانرینا تھے جنہیں ملک کی عدالتِ عالیہ نے صدر کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت دی، جس کے بعد انہیں باقاعدہ آئینی صدر کا درجہ حاصل ہو گیا۔

نئی حکومت اور اصلاحات کا لائحہ عمل
حلف برداری کے بعد اپنے خطاب میں صدر رینڈریانرینا نے کہا کہ “آج مڈغاسکر کی تاریخ کا نیا باب کھل رہا ہے، ہم ماضی کے اختلافات بھلا کر ملک میں سیاسی، معاشی اور انتظامی اصلاحات کا آغاز کریں گے۔” انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ 18 سے 24 ماہ کے اندر اندر ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں گے، جب کہ آئینی اصلاحات اور انتخابی قوانین کی تیاری بھی شروع کر دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک ’’مشترکہ وزیراعظم‘‘ کے تقرر کے لیے تمام فریقین سے مشاورت جاری ہے تاکہ ملک میں سیاسی توازن بحال کیا جا سکے۔

صدر رینڈریانرینا نے یہ مؤقف بھی دوہرایا کہ ان کا اقتدار فوجی بغاوت کا نتیجہ نہیں بلکہ آئینی عدالت کی منظوری کے تحت حاصل ہوا ہے۔ ان کے بقول، ’’یہ ایک قانونی اور آئینی عمل ہے، جس میں عدالتِ عالیہ نے ریاست کے تسلسل کو یقینی بنایا۔‘‘ تاہم سابق صدر راجویلینا کے حامیوں نے اس اقدام کو ’’آئین سے انحراف‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے غیر قانونی طور پر فوج کے ساتھ مل کر اقتدار منتقل کیا، جس سے جمہوری ڈھانچے کو نقصان پہنچا ہے۔

معزول صدر اینڈری راجویلینا نے میڈیا سے گفتگو میں تسلیم کیا کہ انہوں نے جان کے خطرے کے باعث ملک چھوڑا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پہلے فرانس کے زیرِ انتظام جزیرہ رِی یونین گئے اور بعدازاں دبئی روانہ ہو گئے۔ مبصرین کے مطابق مڈغاسکر کی یہ تازہ سیاسی تبدیلی ملک میں جاری اقتدار کی کشمکش کا تسلسل ہے، جو طویل عرصے سے بدعنوانی، معاشی زوال اور سیاسی بے یقینی کا شکار ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرنل مائیکل رینڈریانرینا کی صدارت مڈغاسکر کی تیسری فوجی عبوری حکومت ہے جو 1960 میں آزادی کے بعد اقتدار پر قابض ہوئی۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک میں یہ تیسری مرتبہ ہے کہ ایک صدر کو عوامی احتجاج اور فوجی دباؤ کے نتیجے میں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ عالمی برادری نے مڈغاسکر میں آئینی تسلسل، سیاسی استحکام اور شفاف انتخابات کی ضرورت پر زور دیا ہے، جب کہ افریقی یونین اور اقوامِ متحدہ نے نئی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ وعدے کے مطابق مقررہ مدت میں انتخابات کرائے اور عوامی مینڈیٹ کو بحال کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں