ریکارڈ توڑ سردی کی پیشگوئی، محکمہ موسمیات نے خبر دار کردیا
اسلام آباد (16 اکتوبر 2025): پاکستان میں رواں برس شدید سردی کی افواہوں نے عوامی دلچسپی پیدا کر دی تھی، تاہم محکمہ موسمیات پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ اس سال ’’ریکارڈ توڑ‘‘ یا ’’کڑاکے دار‘‘ سردی کی کوئی سائنسی بنیاد موجود نہیں۔ چند روز قبل بین الاقوامی ماہرینِ موسمیات نے نایاب موسمیاتی تغیر “لا نینا” (La Niña) کے باعث پاکستان میں غیر معمولی سرد موسم کی پیشگوئی کی تھی، جس کے بعد ملک بھر میں سردی کے حوالے سے تشویش اور افواہوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال موسمِ سرما دسمبر سے فروری کے دوران معمول سے قدرے گرم رہنے کا امکان ہے۔ پیشگوئی کے مطابق پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں درجہ حرارت اوسط سے کچھ زیادہ رہے گا جبکہ شمالی خطوں میں معمولی برف باری متوقع ہے، جو گذشتہ برسوں کے مقابلے میں کم ہوگی۔ ادارے نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی ’’انتہائی سرد‘‘ موسم کی خبروں پر یقین نہ کریں کیونکہ ان کی بنیاد سائنسی ڈیٹا پر نہیں بلکہ غیر مصدقہ اندازوں پر ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ملک کو تباہ کن بارشوں، سیلابوں اور ’’کلاوڈ برسٹ‘‘ جیسے شدید موسمی واقعات کا سامنا کرنا پڑا، جس سے نہ صرف انسانی زندگی متاثر ہوئی بلکہ معیشت کو بھی بھاری نقصان پہنچا۔ عالمی ماہرین کے مطابق “لا نینا” کے اثرات عموماً درجہ حرارت میں کمی اور بارشوں میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں، مگر رواں برس اس کے اثرات جنوبی ایشیائی خطے پر محدود رہنے کی توقع ہے۔
محکمہ موسمیات نے وضاحت کی ہے کہ اگرچہ شمالی علاقوں میں ہلکی برف باری اور سرد ہوائیں معمول کے مطابق چلیں گی، لیکن کسی غیر معمولی یا ’’ریکارڈ توڑ‘‘ سردی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ادارے نے کہا کہ ’’لا نینا‘‘ کے موسمی اثرات مقامی حالات کے مطابق مختلف ہو سکتے ہیں، لہٰذا عوام کو غیر مصدقہ موسمی خبروں کے بجائے صرف محکمہ موسمیات کی جاری کردہ معلومات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے موسمیاتی منصوبہ بندی اور ماحولیاتی تحفظ ناگزیر ہو چکے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آلودگی، جنگلات کی کٹائی اور غیر متوازن شہری ترقی نے موسموں کے توازن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور عوام مل کر ایسے اقدامات کریں جو آنے والی نسلوں کے لیے ماحول کو محفوظ بنا سکیں، نہ کہ افواہوں کے ذریعے خوف و ہراس پھیلایا جائے۔