کیا پاکستان کو اپنے میزائلوں کے افغان نام بدلنے چاہییں؟ حامد میر کے بیان نے نئی بحث کو جنم دیا
یوتھ ویژن نیوز : (ناموار کالم نگاراور سیئنر صحافی حامد میر کا اہم پیغام) پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر کا ایک نیا اور غیر معمولی سوال سیاسی و عسکری حلقوں میں موضوعِ بحث بن گیا ہے۔ حامد میر نے کہا کہ پاکستان کو اپنے ان بیلسٹک میزائلوں کے ناموں پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے جنہیں تاریخی افغان شخصیات جیسے غزنوی، غوری اور ابدالی سے منسوب کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق موجودہ افغان قیادت کے رویے اور علاقائی سیاست کی بدلتی ہوئی سمت کو دیکھتے ہوئے اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی شناخت کو نئے اور غیر متنازعہ ناموں سے جوڑے۔
حامد میر نے اپنے تجزیے میں کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کو برادر اسلامی ملک سمجھ کر عزت دی، لیکن موجودہ حالات اس روایتی احترام سے بہت مختلف ہیں۔ آج کی افغان قیادت بھارت کے ساتھ کھلے عام تعلقات استوار کر رہی ہے اور پاکستان کے مفادات کے خلاف موقف اپنا رہی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر افغانستان اب پاکستان کو اپنا بھائی نہیں سمجھتا تو کیا پاکستان کو بھی ان ہی افغان ناموں کو اپنے دفاعی پروگرام کا حصہ بنائے رکھنا چاہیے؟
انہوں نے تاریخی تناظر میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور احمد شاہ ابدالی کا تاریخی کردار برصغیر کی مسلم عسکری تاریخ سے جڑا ہے۔ محمود غزنوی نے گیارہویں صدی میں سومناتھ کے مندر پر حملہ کیا، شہاب الدین غوری نے 1192 میں پرتھوی راج چوہان کو شکست دی، جبکہ احمد شاہ ابدالی نے 1761 کی پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو زیر کیا۔ ان تینوں شخصیات کو برصغیر میں مسلمانوں کی طاقت، فتوحات اور تاریخی شناخت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے حالیہ برسوں میں اپنے میزائل پروگرام میں نسبتاً غیر متنازعہ ناموں کی روایت شروع کر دی ہے، جیسے کہ ’’فتح‘‘ میزائل۔ ان کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کو برادر اسلامی ملک تصور کیا، مگر بدقسمتی سے افغان قیادت نے کبھی اس جذبے کا جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ دفاعی پالیسیوں میں ناموں کی تبدیلی سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات باہمی اعتماد اور احترام کی بنیاد پر استوار ہوں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق حامد میر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی، دہشت گردی کے واقعات، اور سیاسی بیانات نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس بحث نے نہ صرف عسکری ماہرین بلکہ عوامی سطح پر بھی یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا پاکستان کو اپنی دفاعی اصطلاحات میں تبدیلی کے ذریعے ایک نئے سفارتی پیغام کی ضرورت ہے؟
اس تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ کسی بھی ملک کے دفاعی نظام کے نام اس کے تاریخی اور نظریاتی پس منظر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگر حالات اور خطے کے سیاسی بیانیے بدل جائیں، تو ناموں کا از سرِ نو تعین محض علامتی نہیں بلکہ اسٹریٹیجک مفہوم بھی رکھتا ہے۔ حامد میر کے اس سوال نے اسی پہلو کو اجاگر کیا ہے — کہ کیا پاکستان کو اپنے دفاعی تشخص کو نئے نظریاتی خطوط پر استوار کرنے کا وقت آ گیا ہے؟