سیلیکون ویلی میں انسان نما روبوٹس کی خفیہ دوڑ ، نئی کمپنیوں نے ٹیسلا کو ٹکر دینے کی تیاری کر لی
یوتھ ویژن نیوز : (عفان گوہر سے) مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی تیز رفتار ترقی نے اب محض ڈیجیٹل دنیا تک محدود رہنے کے بجائے ہارڈ ویئر کی دنیا میں بھی انقلاب برپا کر دیا ہے۔ امریکا کے جدید ترین ٹیکنالوجی مرکز، سیلیکون ویلی میں دو ایسی خفیہ کمپنیوں نے کام شروع کر دیا ہے جن کا ہدف انسان نما روبوٹس تیار کرنا ہے — ایسے روبوٹس جو مستقبل میں انسانوں کی طرح چل سکیں، دیکھ سکیں، سوچ سکیں اور روزمرہ کے کام انجام دے سکیں۔
یہ دونوں کمپنیاں، “روڈا اے آئی (Rhoda AI)” اور “جینیسِس اے آئی (Genesis AI)”، حال ہی میں منظر عام پر آئی ہیں، مگر ان کی سرمایہ کاری اور اہداف نے عالمی سرمایہ کاروں اور ٹیکنالوجی ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔ فوربز میگزین کی رپورٹ کے مطابق ان دونوں اسٹارٹ اپس نے مجموعی طور پر 300 ملین ڈالر سے زائد فنڈنگ حاصل کی ہے اور وہ خاموشی سے ایسے روبوٹس تیار کر رہی ہیں جو صنعتی ماحول میں انسانوں کی جگہ لے سکیں۔
پالو آلٹو (Palo Alto) میں قائم روڈا اے آئی نے اپریل 2025 میں 162.6 ملین ڈالر کی سیریز-اے فنڈنگ حاصل کی، جس سے کمپنی کی مجموعی مالیت تقریباً ایک ارب ڈالر کے قریب پہنچ گئی ہے۔ دستاویزات کے مطابق کمپنی ایک ایسا "جنرل پرپز بائی مینول مینِپولیشن پلیٹ فارم” تیار کر رہی ہے — یعنی دو بازوؤں والا انسان نما روبوٹ جو بھاری وزن اٹھانے اور پیچیدہ کام انجام دینے کے قابل ہو۔ کمپنی کے بانی جگدیپ سنگھ وہی شخصیت ہیں جنہوں نے Quantumscape اور Infinera جیسی معروف کمپنیاں قائم کی تھیں۔ ان کے ساتھ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر گورڈن ویٹزسٹین اور ونسینٹ کلرک بھی شریک بانیوں میں شامل ہیں، جو پہلے سوفٹ بینک کے روبوٹ “پیپر” پر کام کر چکے ہیں۔
ذرائع کے مطابق روڈا اے آئی کا اہم ہدف ایسے روبوٹس تیار کرنا ہے جو بھاری مشینری یا صنعتی سامان اٹھانے کے قابل ہوں — کیونکہ آج کی زیادہ تر معروف روبوٹ کمپنیاں، جیسے فگر اے آئی (Figure AI) یا ٹیسلا کا روبوٹ Optimus, 50 پاؤنڈ سے زیادہ وزن اٹھانے میں توازن برقرار نہیں رکھ پاتے۔ کمپنی کا ماننا ہے کہ اگر وہ اس چیلنج کو حل کر لیں تو وہ صنعتی خودکار نظاموں میں انقلاب لا سکتے ہیں۔
دوسری جانب، جینیسِس اے آئی ایک مختلف سمت میں پیش قدمی کر رہی ہے۔ کمپنی نے ابتدائی طور پر 105 ملین ڈالر کی سیڈ فنڈنگ حاصل کی ہے، جس میں Khosla Ventures اور گوگل کے سابق سی ای او ایرک شمِٹ جیسے بڑے سرمایہ کار شامل ہیں۔ جینیسِس کا روبوٹ دو بازو رکھتا ہے مگر ٹانگوں کے بجائے پہیوں پر چلتا ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کے روبوٹس زیادہ محفوظ، ہلکے اور کم قیمت ہوں گے، اور فیکٹریوں یا گوداموں میں استعمال کے لیے موزوں رہیں گے۔
کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ژو شیان نے واضح کیا کہ جینیسِس اے آئی روبوٹ مکمل طور پر خود نہیں بنا رہی بلکہ وہ ہارڈویئر وینڈرز کے ساتھ اشتراک کے ذریعے مخصوص ڈیزائن تیار کروا رہی ہے، جبکہ کمپنی کی اصل توجہ ایسے سافٹ ویئر ماڈلز پر ہے جو ان روبوٹس کو کنٹرول کریں گے۔
ٹیکنالوجی ماہرین کے مطابق یہ دونوں کمپنیاں اب اس دوڑ میں شامل ہو چکی ہیں جس میں پہلے ہی ٹیسلا، فگر اے آئی اور 1X جیسے بڑے ادارے میدان میں موجود ہیں۔ فگر اے آئی نے حال ہی میں اعلان کیا کہ اس نے ایک ارب ڈالر سے زائد فنڈنگ حاصل کر لی ہے، جبکہ ٹیسلا کا “Optimus” روبوٹ بھی تجرباتی مراحل میں ہے۔ اگرچہ یہ روبوٹ فی الحال محدود کاموں کے قابل ہیں، مگر سرمایہ کاروں کو امید ہے کہ آنے والے چند برسوں میں یہ روبوٹ گھروں، اسپتالوں، فیکٹریوں اور دفتروں میں انسانوں کی مدد کر سکیں گے۔
این ویڈیا کے سی ای او جینسن ہوانگ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ “انسان نما روبوٹس دنیا کی سب سے بڑی صنعتوں میں سے ایک بن سکتے ہیں۔” ان کے مطابق، مصنوعی ذہانت کے بعد اب روبوٹکس وہ اگلا قدم ہے جو انسانی معیشت کے ڈھانچے کو بدل سکتا ہے۔ اسی طرح ایلون مسک نے بارہا کہا ہے کہ “ٹیسلا کا روبوٹک یونٹ مستقبل میں کمپنی کا سب سے قیمتی شعبہ بنے گا۔”
تاہم، تمام ماہرین اتنے پرامید نہیں۔ بعض سرمایہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ شعبہ ابھی تجارتی سطح پر تیار نہیں۔ روٹ وینچرز کے جنرل پارٹنر کین ہسیہ کے مطابق، “سرمایہ کار اس وقت روبوٹکس کو اگلی بڑی چیز کے طور پر دیکھ رہے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اب بھی ایک طویل اور مشکل سفر ہے۔” ان کے مطابق بڑے لینگویج ماڈلز کی کامیابی کے بعد سرمایہ کار روبوٹکس کو جلدی سے نفع دینے والا شعبہ سمجھ رہے ہیں، حالانکہ یہ تصور فی الحال محض قیاس ہے۔
اس کے باوجود، سرمایہ کاری کی رفتار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے ٹیکنالوجی ادارے اور سرمایہ کار اب انسان نما روبوٹس کو مستقبل کی ناگزیر حقیقت سمجھنے لگے ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر یہ کمپنیاں اپنے اہداف حاصل کر لیں تو آنے والے برسوں میں فیکٹریوں اور گوداموں میں انسانوں کے ساتھ روبوٹس کا شانہ بشانہ کام کرنا عام بات ہو گی۔
روڈا اے آئی اور جینیسِس اے آئی کی سرگرمیاں فی الحال زیادہ تر خفیہ ہیں، لیکن ان کی فنڈنگ، ٹیمز اور اہداف یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ سیلیکون ویلی میں ایک خاموش مگر طاقتور روبوٹک انقلاب جنم لے رہا ہے — ایک ایسا انقلاب جو انسان اور مشین کے درمیان موجود لکیر کو دھندلا سکتا ہے۔