پی ٹی آئی کے محمد سہیل آفریدی 90 ووٹ لے کر نئے وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا منتخب

پی ٹی آئی کے محمد سہیل آفریدی 90 ووٹ لے کر نئے وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا منتخب

یو تھ وژن نیوز: (عمرن قذافی سے) پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے نامزد رہنما محمد سہیل آفریدی کو خیبر پختونخوا کا نیا وزیرِاعلیٰ منتخب کر لیا گیا۔ صوبائی اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس میں انہوں نے 90 ووٹ حاصل کیے اور قائدِ ایوان منتخب ہوئے۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن ارکان نے طریقۂ کار پر اعتراضات اٹھائے اور واک آؤٹ کیا، جبکہ ایوان کے اندر اور باہر سیاسی جوش اور نعروں کا سلسلہ جاری رہا۔ اجلاس کی صدارت اسپیکر بابرسلیم سواتی نے کی۔ حکومتی بنچوں پر وزیروں اور ارکانِ اسمبلی کی آمد کے ساتھ ہی ہاؤس میں کافی گہما گہمی رہی، جب کہ چیمبرز اور لابیز میں بھی کارکنوں کی موجودگی موضوعِ بحث بنی رہی۔ اپوزیشن کی جانب سے موقف تھا کہ قائدِ ایوان کے انتخاب سے قبل کچھ قانونی وضاحتیں درکار ہیں؛ تاہم اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ اجلاس اور انتخاب کا طریقۂ کار آئین و قانون کے مطابق ہے اور کارِسرکار میں مزید تاخیر مناسب نہیں۔

انتخاب سے قبل ایوان میں سابق وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈاپور کے استعفے کے معاملے پر بھی بحث رہی۔ یہ معاملہ گزشتہ ہفتے سے توجہ کا مرکز تھا، جب گنڈاپور کی جانب سے 8 اکتوبر اور 11 اکتوبر کو استعفیٰ دینے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ بعض اطلاعات میں گورنر کی جانب سے استعفے پر اعتراضات یا واپسی کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں، تاہم پارٹی اور حکومتی کیمپ میں یہ رائے غالب رہی کہ قائدِ ایوان کا انتخاب آگے بڑھایا جائے۔ ایوان میں ووٹنگ کے دوران حکومتی ارکان سہیل آفریدی کی لابی میں جمع ہوئے اور مقررہ وقت میں ووٹ ڈالنے کے بعد گھنٹیاں بجا کر حاضری یقینی بنائی گئی۔ اسپیکر نے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر اعلان کیا کہ محمد سہیل آفریدی نے 90 ووٹ حاصل کیے اور یوں وہ آئین کے تقاضے پورے کرتے ہوئے قائدِ ایوان منتخب ہو گئے۔ اپوزیشن کے واک آؤٹ کے باعث ان کے امیدواروں—جن میں مولانا لطف الرحمان (جمیعت علمائے اسلام ف)، سردار شاہجہان یوسف (مسلم لیگ ن) اور ارباب زرک (پیپلز پارٹی)—کو ووٹ نہ مل سکے۔ انتخاب کے بعد ارکانِ اسمبلی نے نومنتخب وزیرِاعلیٰ کو مبارک باد دی۔ اسپیکر نے کہا کہ یہ انتخاب پورے صوبے کے لیے اہم پیش رفت ہے اور آئینی عہدے خواہشات سے نہیں بلکہ قانون کے تحت طے پاتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ قائدِ ایوان کے انتخاب میں اپنایا گیا طریقۂ کار آئین کے عین مطابق ہے اور اب حکومت سازی کے اگلے مراحل—وزرا کا تقرر، کابینہ کی تشکیل، اور ترجیحات کی فہرست—پر پیش رفت ہوگی۔

سہیل آفریدی کون ہیں؟

محمد سہیل آفریدی ضلع خیبر کے حلقہ PK-70 (خیبر-II) سے رکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ انہوں نے نوجوانی سے پی ٹی آئی کے طلبہ ونگ کے ساتھ وابستگی رکھی اور گزشتہ برس صوبائی کابینہ میں ذمہ داریاں سنبھالیں۔ پارٹی کے اندر ان کی شناخت ایک متحرک اور تنظیمی پس منظر رکھنے والے رہنما کے طور پر کی جاتی ہے۔ انہیں حالیہ سیاسی اتار چڑھاؤ میں عمران خان کی جانب سے سرِعام حمایت بھی ملی۔

گنڈاپور استعفیٰ تنازع—پس منظر

گزشتہ ہفتے علی امین گنڈاپور کی جانب سے استعفیٰ دینے کے اعلانات پر سیاسی میدان گرم رہا۔ گورنر ہاؤس اور حکومتی حلقوں میں استعفے کی وصولی اور قبولیت کے طریقۂ کار پر بحث جاری رہی، جب کہ سوشل میڈیا پر بھی رہنماؤں کے بیانات سامنے آتے رہے۔ اس دوران پی ٹی آئی کی صفوں میں نئی قیادت کے انتخاب کے لیے مشاورت ہوئی اور سہیل آفریدی کے نام پر اتفاقِ رائے سامنے آیا۔ آج کی ووٹنگ نے پارٹی کے اندر اس فیصلے کو باقاعدہ سیاسی قوت عطا کر دی۔

ایوان کے اندر صورتِ حال

اجلاس کے آغاز میں وقفے وقفے سے نعرے بازی اور شور شرابہ ہوتا رہا۔ سیکیورٹی عملے نے ارکان اور مخصوص گیلریز کے نظم و ضبط کے لیے اضافی اقدامات کیے۔ اسپیکر کی بارہا “آرڈر آف دی ہاؤس” کی ہدایات کے باوجود شور کے مناظر سامنے آئے، تاہم ووٹنگ کے اہم مرحلوں میں کارروائی وقفوں کے ساتھ مکمل کی گئی۔ حکومتی ارکان کا مؤقف تھا کہ سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن آئینی عمل کی تکمیل صوبے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن نے رولز کی تشریح اور استعفیٰ سے متعلق قانونی پہلوؤں پر سوالات اٹھائے اور بعد ازاں ووٹنگ کے دوران ایوان سے واک آؤٹ کر گئی۔

نومنتخب وزیرِاعلیٰ کا پہلا ردِعمل

قائدِ ایوان منتخب ہونے کے بعد سہیل آفریدی نے اپنے خطاب میں پارٹی قیادت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ گڈ گورننس، امن و امان، روزگار اور قبائلی اضلاع کی ڈویلپمنٹ کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کی محرومیوں کے ازالے، سرمایہ کاری کے فروغ، سیاحت کے مواقع بڑھانے اور نوجوانوں کے لیے اسکلڈ ڈویلپمنٹ پروگرامز پر توجہ دیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے آئینی حدود میں رہتے ہوئے وفاق کے ساتھ تعاون اور مؤثر رابطہ رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔

آگے کیا ہوگا؟

پارلیمانی روایات کے مطابق اب کابینہ کی تشکیل اور محکموں کی تقسیم اگلا مرحلہ ہوگا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق ابتدائی فہرست پر مشاورت شروع ہو چکی ہے اور سرکاری مالی نظم، پولیس ریفارمز، صحت کارڈ، تعلیمی اصلاحات اور قبائلی اضلاع کے انضمامی منصوبے اولین ترجیح ہوں گے۔ مبصرین کے مطابق نئے وزیرِاعلیٰ کو سیاسی استحکام کے ساتھ انتظامی کارکردگی دکھانا ہوگی تاکہ صوبے میں گڈ گورننس کی فضا قائم رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں