ایران نے ٹرمپ کی اسرائیل سے متعلق تجویز کو خیالی باتیں قرار دے کر مسترد کردیا

ایران نے ٹرمپ کی اسرائیل سے متعلق تجویز کو خیالی باتیں قرار دے کر مسترد کردیا

ایران نے ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل سے متعلق تجویز کو مسترد کیا — وزیرخارجہ عباس عراقچی کا دوٹوک مؤقف

یوتھ ویژن نیوز : (مظہر اسحاق چشتی سے) ایران نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی تجویز کو "خیالی باتیں” قرار دے کر مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔
ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایسی ریاست کو تسلیم نہیں کر سکتی جو فلسطینی عوام کے قتل عام اور قبضے کی پالیسیوں میں ملوث ہو۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے سرکاری ٹیلی ویژن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ایران کبھی بھی اسرائیل جیسے قابض اور نسل کشی کرنے والے نظام کو تسلیم نہیں کرے گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز حقیقت سے دور اور سیاسی طور پر غیر سنجیدہ ہے۔‘‘

ٹرمپ کی متنازع تجویز

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے۔
انہوں نے ابراہم ایکارڈز (Abraham Accords) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’چار مسلم ممالک پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر چکے ہیں، ہوسکتا ہے ایران بھی کسی وقت ان میں شامل ہوجائے۔‘‘

ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام نہ ملنے پر وائٹ ہاؤس کا ردعمل

ٹرمپ کے اس بیان نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی سفارتی بحث کو جنم دیا ہے۔
تاہم ایران نے فوری ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ تجویز نہ صرف ’’ناقابلِ قبول‘‘ ہے بلکہ اسلامی دنیا کے اصولی مؤقف کے بھی منافی ہے۔

ایران کا مؤقف — فلسطین اولین ترجیح

ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ایران کی خارجہ پالیسی ہمیشہ فلسطینی عوام کی حمایت پر مبنی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کو کسی صورت جائز نہیں سمجھتے۔ کوئی بھی ملک جو انصاف کا احترام کرتا ہے، اسے قابض قوت کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرنے چاہئیں۔‘‘

عباس عراقچی نے مزید کہا کہ فلسطین کی آزادی ایران کے قومی مفاد سے زیادہ ایک انسانی و اخلاقی فریضہ ہے۔
انہوں نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ نسل کشی، بچوں کے قتل اور مذہبی مقامات کی بے حرمتی جیسے جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔

عالمی ردعمل اور پس منظر

بین الاقوامی مبصرین کے مطابق، ٹرمپ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے خلاف جذبات دوبارہ شدت اختیار کر چکے ہیں، خصوصاً غزہ میں جاری انسانی بحران کے بعد۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کا ردعمل متوقع تھا کیونکہ ایران طویل عرصے سے اسرائیل کو خطے میں غیر قانونی ریاست قرار دیتا آ رہا ہے۔

دوسری جانب امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق، ٹرمپ کی یہ تجویز دراصل ان کے انتخابی بیانیے کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنی سابقہ سفارتی کامیابیوں کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔

ابراہم ایکارڈز — ایک مختصر پس منظر

سال 2020 میں سابق صدر ٹرمپ کے دورِ اقتدار میں ابراہم ایکارڈز کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔
اس معاہدے کو امریکی سفارت کاری کی بڑی کامیابی قرار دیا گیا تھا، تاہم متعدد مسلم ممالک نے اسے فلسطینی عوام سے غداری قرار دیتے ہوئے مخالفت کی تھی۔

ایران نے اس وقت بھی ابراہم ایکارڈز کو ’’قابض ریاست کی پشت پناہی‘‘ قرار دیا تھا اور اس کے بعد سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا۔

ماہرین کی رائے

بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق، ایران کا یہ حالیہ ردعمل اس کے اسلامی اور نظریاتی مؤقف کے عین مطابق ہے۔
تہران کے پالیسی ماہر ڈاکٹر رضا محسنی کے مطابق:

’’ایران کی پالیسی واضح ہے — جب تک فلسطین آزاد نہیں ہوتا، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’ٹرمپ جیسے بیانات دراصل انتخابی سیاست کا حصہ ہیں، جنہیں ایران سنجیدگی سے نہیں لیتا۔‘‘

خطے میں سیاسی اثرات

مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے تعلقات ہمیشہ تنازع، پراکسی جنگوں، اور نظریاتی اختلافات سے بھرپور رہے ہیں۔
ایران کے اس تازہ ردعمل سے واضح ہے کہ وہ مستقبل قریب میں اسرائیل سے کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات پر غور نہیں کرے گا۔
اس پالیسی کے اثرات خطے کی سفارتی صف بندی پر بھی پڑ سکتے ہیں، خصوصاً ایسے وقت میں جب کئی عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ روابط بڑھا رہے ہیں۔

نتیجہ — ایران کا دوٹوک مؤقف

ایران کا مؤقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ وہ فلسطین کے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں امن کو ناممکن سمجھتا ہے۔
عباس عراقچی کے الفاظ میں:

’’ہم اسرائیل کے وجود کو ایک حقیقت کے طور پر قبول نہیں کرتے، اور نہ ہی کسی بیرونی دباؤ کے تحت ایسا کریں گے۔‘‘

ایران نے عالمی برادری سے بھی اپیل کی کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے اور اسرائیل کی ’’جارحانہ پالیسیوں‘‘ کا نوٹس لے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں