پاکستان میں زلزلے کے جھٹکے، لیہ اور ڈی آئی خان کے عوام خوفزدہ

پاکستان میں زلزلے کے جھٹکے، لیہ اور ڈی آئی خان کے عوام خوفزدہ

پنجاب کے لیہ اور خیبر پختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان میں زلزلے کے جھٹکے، شدت 5 ریکارڈ۔

یوتھ ویژن نیوز : (عمران قذافی سے) پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہفتے کی شام زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جنہوں نے عوام میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق، پنجاب کے ضلع لیہ اور خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 5 ریکارڈ کی گئی۔ زلزلے کا مرکز لیہ شہر سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر اور زمین میں تقریباً بیس کلومیٹر گہرائی میں تھا۔ اچانک آنے والے جھٹکوں کے باعث لوگ اپنے گھروں، دکانوں اور دفاتر سے باہر نکل آئے، سڑکوں پر ہلچل مچ گئی اور شہری کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے لگے۔ لیہ اور ڈی آئی خان کے کئی مقامات پر بجلی کی ترسیل عارضی طور پر متاثر ہوئی تاہم کچھ دیر بعد بحال کر دی گئی۔ ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ٹیمیں فوری طور پر متحرک ہو گئیں جبکہ پولیس نے مساجد کے لاؤڈ اسپیکر پر شہریوں کو پرسکون رہنے اور غیر ضروری افواہوں سے گریز کی ہدایت کی۔

زلزلہ پیما مرکز کے اعدادوشمار

زلزلہ پیما مرکز نے بتایا کہ زلزلے کا تعلق ہمالیائی فالٹ لائن سے جڑے زیرِ زمین دباؤ کے ایک سلسلے سے تھا جو وقتاً فوقتاً پاکستان کے شمالی اور وسطی علاقوں میں جھٹکوں کا باعث بنتا رہتا ہے۔ خوش قسمتی سے کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی، البتہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ابتدائی جھٹکوں کے بعد آفٹر شاکس کے امکانات موجود ہیں اس لیے شہری اگلے 24 گھنٹوں تک محتاط رہیں۔ محکمہ موسمیات نے تمام ضلعی ایمرجنسی مراکز کو الرٹ رہنے اور زلزلے سے متعلق رپورٹوں پر فوری ردعمل دینے کی ہدایت دی ہے۔ زلزلہ پیما مرکز کے اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان کے شمالی خطے اور پنجاب کے جنوبی حصے دنیا کے سب سے زیادہ فعال زلزلی علاقوں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ یہ دونوں خطے انڈین اور یوریشین پلیٹس کے ملاپ کے مقام پر واقع ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں چھوٹے پیمانے کے زلزلے ریکارڈ کیے جا چکے ہیں، تاہم حالیہ جھٹکوں کی شدت نسبتاً زیادہ تھی جس سے لوگوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ 5 شدت کا زلزلہ درمیانے درجے کا سمجھا جاتا ہے جو عام طور پر عمارتوں کو نقصان نہیں پہنچاتا لیکن کمزور یا غیر معیاری تعمیرات کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ زلزلہ پیما مرکز نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ زلزلے کی صورت میں پرسکون رہیں، فوری طور پر کھلے مقام پر جائیں اور بجلی کی تاروں، عمارتوں یا درختوں سے دور رہیں۔ زلزلہ پیما ادارے نے تعلیمی اداروں اور دفاتر کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایمرجنسی نکاسی کے راستے واضح رکھیں اور عملے کو زلزلے کے دوران حفاظتی اقدامات کی تربیت دیں۔

لیہ اور ڈیرہ اسماعیل خان کی مقامی انتظامیہ نے صورتحال پر مکمل کنٹرول کی اطلاع دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام اسپتال، ریسکیو مراکز اور ایمرجنسی ٹیمیں تیار ہیں اور اگر کسی قسم کا نقصان سامنے آتا ہے تو فوری امداد فراہم کی جائے گی۔ شہریوں نے سوشل میڈیا پر زلزلے کے دوران کی ویڈیوز اور تجربات شیئر کیے جن میں واضح طور پر جھٹکوں کی شدت اور خوف کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں، جن میں بہاولپور، میانوالی اور خوشاب کے علاقے شامل ہیں، میں بھی معمولی لرزش محسوس کی گئی۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے شہریوں کو اب زلزلے کے خطرے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا کیونکہ موسمی تبدیلیوں اور زیرِ زمین پلیٹس کی نقل و حرکت میں تیزی سے شدت آ رہی ہے۔ ماہر ارضیات ڈاکٹر فہد قریشی کے مطابق، “یہ زلزلے ایک وارننگ ہیں کہ ملک میں زلزلہ مزاحم تعمیرات کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے،” ان کا کہنا تھا کہ عوامی آگاہی اور بلڈنگ کوڈز پر عملدرآمد ہی جانی و مالی نقصان کو کم کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں بھی پاکستان کو ان دس ممالک میں شامل کیا گیا ہے جو قدرتی آفات کے خطرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ حکومت نے شہریوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ریسکیو 1122 کے ہیلپ لائن نمبرز یاد رکھیں اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوری اطلاع دیں۔ اگرچہ زلزلے کی شدت زیادہ نہیں تھی لیکن اس نے عوام کو یاد دلا دیا ہے کہ قدرتی آفات کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ رونما ہو سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ جھٹکے ایک بار پھر یاد دہانی ہیں کہ قدرتی نظام کے مقابلے میں انسانی طاقت کتنی محدود ہے، اور ہمیں اپنی شہری منصوبہ بندی اور تعمیرات کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ لیہ اور ڈی آئی خان میں زلزلے کے بعد معمولاتِ زندگی بحال ہو چکے ہیں مگر لوگوں کے ذہنوں میں خوف کی کیفیت اب بھی برقرار ہے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ چند ہفتوں میں زلزلہ سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہم چلائے گی تاکہ عوام مستقبل میں ایسی صورتحال کے دوران پرسکون رہ سکیں اور فوری حفاظتی اقدامات اختیار کر سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں