سری لنکا کی پاکستان کو بڑی پیشکش! فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ شراکت داری کی پیشکش کر دی۔

سری لنکا کی پاکستان کو بڑی پیشکش! فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ شراکت داری کی پیشکش کر دی۔
(علی رضا یوتھ ایمبسڈر )

یوتھ ویژن نیوز : (خصوصی رپورٹ برائے علی رضا سے) سری لنکا نے پاکستان کے ساتھ فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ شراکت داری کی پیشکش کر دی ہے۔
سری لنکن پارلیمنٹ کے رکن ہرشانا راجا نے لاہور میں منعقدہ “بریتھ پاکستان” (Breathe Pakistan) کانفرنس میں شرکت کے دوران کہا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ فضائی آلودگی، پائیدار توانائی اور ماحول دوست منصوبوں کے میدان میں مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

یہ کانفرنس لاہور میں فضائی آلودگی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے تدارک کے لیے منعقد کی گئی، جس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیرِ توانائی مصدق ملک، وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب، اقوامِ متحدہ کے نمائندے، ماحولیاتی ماہرین، نوجوان ایکٹیوسٹس اور غیر ملکی وفود نے شرکت کی۔

ہرشانا راجا کا بیان — “پاکستان کے تجربے سے سیکھنا چاہتے ہیں”

سری لنکن رکنِ پارلیمنٹ ہرشانا راجا نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کا وہ ملک ہے جو ماحولیاتی مسائل سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، لیکن اس نے پالیسی اور عوامی شعور کے ذریعے قابلِ تعریف اقدامات کیے ہیں۔
انہوں نے کہا:

“ہم پاکستان کے تجربے سے سیکھنا چاہتے ہیں، خصوصاً لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے شہروں میں آلودگی کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات قابلِ تقلید ہیں۔ سری لنکا پاکستان کے ساتھ مشترکہ تحقیق، ٹیکنالوجی شیئرنگ، اور کلائمیٹ فنڈز کے حصول کے لیے پارٹنرشپ کا خواہاں ہے۔”

احسن اقبال: “ماحولیاتی تبدیلی قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے”

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اپنے خطاب میں کہا کہ “ماحولیاتی تبدیلی اب قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے۔ اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے تو آنے والی نسلوں کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو جائے گا۔”
انہوں نے کہا کہ حکومت “بریتھ پاکستان” اقدام کے تحت صنعتی اخراج، ٹرانسپورٹ کے دھوئیں اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے کلین انرجی زونز اور گرین انڈسٹریل پالیسی پر عمل درآمد کر رہی ہے۔

مصدق ملک: “کلین انرجی کے بغیر پائیدار ترقی ممکن نہیں”

وزیر توانائی مصدق ملک نے کہا کہ پاکستان نے توانائی کے شعبے میں ری نیو ایبل انرجی ٹارگٹس طے کر لیے ہیں، اور 2030 تک 60 فیصد بجلی صاف ذرائع سے حاصل کرنے کا منصوبہ ہے۔
انہوں نے کہا:

“ہم سری لنکا سمیت خطے کے تمام ممالک کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ فضائی آلودگی کوئی سرحد نہیں مانتی، اس کے خلاف اجتماعی کوششیں ہی کامیابی دلا سکتی ہیں۔”

مریم اورنگزیب: “صاف فضا صاف سیاست کی طرح ضروری ہے”

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ “صاف فضا صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ معاشرتی ضرورت بھی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ “پاکستان حکومت نے میڈیا اور نوجوانوں کے ذریعے عوامی سطح پر ماحولیاتی شعور پیدا کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ:

“بریتھ پاکستان جیسے اقدامات عوام، حکومت اور بین الاقوامی برادری کے درمیان پُل کا کام کریں گے۔ یہ وقت عمل کا ہے، بیانات کا نہیں۔”

اقوامِ متحدہ اور ماہرین کا ردعمل

اقوامِ متحدہ کے نمائندے نے کہا کہ پاکستان اور سری لنکا کی باہمی شراکت جنوبی ایشیا کے لیے ایک ماڈل بن سکتی ہے۔
ان کے مطابق خطے میں فضائی آلودگی کی وجوہات تقریباً یکساں ہیں — گاڑیوں کا دھواں، فصلوں کی باقیات جلانا، اور ناقص انڈسٹریل کنٹرول سسٹم۔
انہوں نے کہا کہ “اگر جنوبی ایشیا کے ممالک اجتماعی منصوبے پر متفق ہو جائیں تو عالمی سطح پر کاربن اخراج میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔”

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق لاہور دنیا کے ان 10 شہروں میں شامل ہے جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) مسلسل خطرناک حد تک بلند رہتا ہے۔
یہ صورتحال عوامی صحت، معیشت اور طرزِ زندگی پر براہِ راست اثر ڈال رہی ہے۔

’بریتھ پاکستان‘ — عوامی شراکت کا نیا باب

کانفرنس کے دوران ‘بریتھ پاکستان’ کے بانیوں نے بتایا کہ اس اقدام کا مقصد حکومت، نجی شعبے، طلبہ، اور شہری تنظیموں کو یکجا کرنا ہے تاکہ شہری فضا کو صاف رکھنے، درخت لگانے اور ماحولیاتی ذمہ داری بڑھانے کے اقدامات کیے جا سکیں۔

طلبہ اور نوجوان شرکاء نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور حکومت سے اپیل کی کہ ماحولیاتی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نئی نسل اپنے ماحول سے جڑے رہنے کی عادت سیکھے۔

خطے میں نئی امید — پاک-سری لنکا کلائمیٹ پارٹنرشپ

کانفرنس کے اختتام پر دونوں ممالک کے نمائندوں نے “پاک-سری لنکا کلائمیٹ پارٹنرشپ” کے قیام پر اتفاق کیا، جس کے تحت دونوں ملک ماحولیاتی ٹیکنالوجی، گرین فنانسنگ، اور آلودگی کنٹرول پالیسی پر تعاون بڑھائیں گے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق یہ شراکت جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی سفارت کاری (Green Diplomacy) کا نیا باب کھول سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں