برطانوی یونیورسٹیوں میں مالی بحران شدت اختیار کر گیا، 12 ہزار سے زائد اساتذہ و عملہ بے روزگار

برطانوی یونیورسٹیوں میں مالی بحران شدت اختیار کر گیا، 12 ہزار سے زائد اساتذہ و عملہ بے روزگار

یوتھ ویژن نیوز : (خصوصی رپورٹ برائے محمد عاقب قریشی سے) برطانیہ کی اعلیٰ تعلیمی ادارے اس وقت بدترین مالی بحران کا شکار ہیں، جس کے نتیجے میں گزشتہ ایک سال کے دوران 12 ہزار سے زائد ملازمین کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی اینڈ کالج یونین (UCU) کی تازہ رپورٹ کے مطابق متعدد اداروں نے اخراجات میں مزید کٹوتیوں کے منصوبے بنائے ہیں، جو مزید 3 ہزار ملازمتوں کے خاتمے کے برابر ہوں گے۔ اس صورتحال نے نہ صرف تعلیمی معیار پر سوال اٹھا دیا ہے بلکہ ہزاروں خاندانوں کے معاشی مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔

یونین نے واضح کیا ہے کہ حکومتی سطح پر فنڈنگ کی کمی نے اعلیٰ تعلیم کے نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی 80 فیصد سے زائد یونیورسٹیاں خسارے میں جا چکی ہیں اور ان کے پاس تنخواہوں، تحقیقی منصوبوں اور طلبہ کی فلاحی سہولتوں کے لیے فنڈز ناکافی ہیں۔ دوسری جانب یونیورسٹیز اینڈ کالجز ایمپلائرز ایسوسی ایشن (UCEA) کے چیف ایگزیکٹو راج جیٹھوا کا کہنا ہے کہ موجودہ مالی بحران غیر معمولی ہے اور ادارے مجبوری میں سخت مگر ضروری فیصلے لے رہے ہیں۔ ان کے مطابق کوشش کی جا رہی ہے کہ کٹوتیوں کا عمل شفاف اور منصفانہ ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کئی یونیورسٹیاں دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔

یونین نے اس صورتحال پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے 1.4 فیصد تنخواہ اضافے کی پیشکش کو ناکافی قرار دیا ہے۔ یونین سیکریٹری جو گریڈی نے کٹوتیوں کو "ظالمانہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ تدریسی عملہ شدید ذہنی دباؤ اور مایوسی کا شکار ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ نے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو ملک گیر ہڑتال کی جائے گی۔ ان کے مطابق تدریسی عملہ صرف اپنی نوکری نہیں بلکہ برطانوی اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کے لیے لڑ رہا ہے۔

برطانیہ کی کئی معروف یونیورسٹیاں بھی اس بحران سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔ یونیورسٹی آف بریڈفورڈ کے سینئر لیکچرر ڈاکٹر زیک ہیوز کے مطابق ان کی یونیورسٹی میں کیمسٹری سمیت کئی اہم کورسز بند کیے جا رہے ہیں، جس کے باعث درجنوں اساتذہ بیروزگار ہونے کے قریب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ صرف نوکریوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ تعلیمی معیار، ریسرچ اور سائنسی ترقی کے مستقبل پر ایک کاری ضرب ہے۔‘‘

یونیورسٹی آف ایڈنبرا نے بھی 140 ملین پاؤنڈ کی بچت کے منصوبے کا اعلان کیا ہے، جس سے تقریباً 1,800 نوکریاں متاثر ہوں گی۔ طلبہ کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے کہ بجٹ میں کٹوتیوں نے تعلیمی سہولتوں، لیبارٹریز اور سپورٹ سروسز کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کئی طلبہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی فیس ادا کر رہے ہیں لیکن بدلے میں انہیں وہ معیار نہیں مل رہا جو برطانوی یونیورسٹیوں کی پہچان تھی۔

حکومت نے تاہم اس صورتحال کی ذمہ داری جزوی طور پر عالمی معاشی بحران اور مہنگائی پر ڈال دی ہے۔ برطانوی وزارتِ تعلیم کے ترجمان کے مطابق گزشتہ سال فیسوں میں اضافہ ایک مشکل مگر ناگزیر فیصلہ تھا تاکہ یونیورسٹیوں کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ ترجمان نے کہا کہ حکومت اعلیٰ تعلیم کے نظام کو مستحکم کرنے کے لیے مزید اصلاحات متعارف کرانے جا رہی ہے اور ایک نیا قانون جلد پیش کیا جائے گا، جو مالی نظم و نسق کو بہتر بنانے میں مدد دے گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ بحران فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی اعلیٰ تعلیم کا معیار بری طرح متاثر ہوگا۔ ریسرچ فنڈنگ میں کمی، عملے کی برطرفی اور طلبہ پر بڑھتا ہوا مالی بوجھ برطانوی تعلیمی نظام کے توازن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

برطانوی یونیورسٹیوں کا بحران صرف اعداد و شمار نہیں، یہ تعلیم اور مستقبل کے خوابوں کا زوال ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں