خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے خاتمے کا عزم، ڈی جی آئی ایس پی آر کا اہم اعلان

پاکستان سے بالاتر کوئی فرد نہیں، اب سٹیٹس کو نہیں چلے گا،ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری

بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشتگردوں کو جگہ دی گئی، ڈی جی آئی ایس پی آر۔

یوتھ ویژن نیوز : ( ثاقب ابراہیم غوری سے) ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کور ہیڈ کوارٹرز پشاور میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد صوبہ خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینا اور دہشت گردی کے خلاف جاری اقدامات سے عوام کو آگاہ کرنا ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب کے آغاز میں خیبرپختونخوا کے غیور عوام کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ افواجِ پاکستان اور عوام نے مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں یہاں افواجِ پاکستان کے تجدیدِ عزم کے لیے آیا ہوں تاکہ واضح کر سکوں کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا ہمارا عزم پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔

مزید پڑھی: ڈی جی آئی ایس پی آر اتل سہولت کار کسی بھی عہدے پر ہوں، ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق، خیبرپختونخوا میں رواں برس کے دوران انسدادِ دہشت گردی کے تحت 15 ستمبر 2025 تک 10 ہزار 115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے جا چکے ہیں، یعنی یومیہ 40 سے زائد آپریشنز۔ ان کارروائیوں کے دوران 917 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا جبکہ 516 پاکستانیوں نے جامِ شہادت نوش کیا، جن میں 311 پاک فوج کے افسران و جوانان، 73 پولیس اہلکار اور 132 معصوم شہری شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2024 میں بھی 14 ہزار 535 آپریشنز کیے گئے تھے، جن میں 769 دہشت گرد مارے گئے جبکہ 577 افراد شہید ہوئے، جن میں پاک فوج کے 272 جوان، پولیس کے 140 اہلکار اور 165 شہری شامل تھے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے مسلسل قربانیاں دے رہی ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 2016 کے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کے خلاف بے مثال جدوجہد کی، مگر بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے میں خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو دوبارہ اسپیس دی گئی، گورننس کمزور ہوئی، اور عوامی فلاح کے منصوبوں کو پسِ پشت ڈال دیا گیا، جس کا خمیازہ آج صوبے کے عوام قربانیوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

دہشت گردی کے خاتمے میں رکاوٹ بننے والی وجوہات

ترجمان پاک فوج نے دہشت گردی کے مکمل خاتمے میں رکاوٹ بننے والی پانچ بڑی وجوہات بیان کیں:
1️⃣ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہ ہونا۔
2️⃣ دہشت گردی کے مسئلے پر سیاست بازی۔
3️⃣ بھارت کی جانب سے افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا۔
4️⃣ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور جدید ہتھیاروں کی دستیابی۔
5️⃣ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کو مقامی و سیاسی پشت پناہی حاصل ہونا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ 2024 اور 2025 کے دوران 161 افغان دہشت گرد مارے گئے، جبکہ 135 خارجی دہشت گرد افغانستان کی سرحد سے داخلے کے دوران ہلاک کیے گئے۔ اس کے علاوہ خودکش حملوں میں ملوث 30 دہشت گرد افغان شہری تھے۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت اور افغانستان کی زمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

نیشنل ایکشن پلان پر پیشرفت کا تفصیلی جائزہ

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 2014 میں سانحہ اے پی ایس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے پشاور میں بیٹھ کر ایک متفقہ نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا، تاہم اس پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ 2021 میں ایک نظرثانی شدہ 14 نکاتی پلان بنایا گیا جس کا مقصد دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا تھا، مگر ان نکات پر پیشرفت نہ ہونے کے باعث دہشت گردی کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایکشن پلان کے پہلے نکتے یعنی دہشت گردوں کے خلاف براہ راست کارروائی پر سیکیورٹی فورسز نے بھرپور کام کیا ہے، مگر باقی 13 نکات پر خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہو سکی۔

میڈیا اور سیاستدانوں کے کردار پر تنقید

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ میڈیا اور سیاستدانوں کو ایک واضح قومی بیانیہ اپنانا ہوگا۔ اگر ہر مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے تو پھر جنگیں کیوں ہوئیں؟ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی جیسے ناسور سے بات چیت نہیں بلکہ طاقت کے ذریعے نمٹا جا سکتا ہے۔

عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور نظام انصاف پر گفتگو

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کی انسدادِ دہشت گردی عدالتوں میں 2878 مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ 1706 مقدمات کو تین سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “جب تک عدالتی نظام مضبوط نہیں ہوگا، دہشت گردی کے خلاف جنگ ادھوری رہے گی۔”

انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی اور غیرقانونی کاروبار کا گٹھ جوڑ ختم کرنا ناگزیر ہے۔ منشیات کے 10 ہزار 87 کیسز میں سے صرف 679 مجرموں کو سزا ہوئی جبکہ غیرقانونی ہتھیاروں کے 33 ہزار 389 کیسز میں سے صرف 6945 افراد کو سزا ملی۔

سی ٹی ڈی اور مدارس کے اندراج پر بریفنگ

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 2014 میں فیصلہ ہوا تھا کہ محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کو مضبوط بنایا جائے گا مگر خیبرپختونخوا میں اس وقت سی ٹی ڈی کی افرادی قوت صرف 3200 ہے، جو ناکافی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صوبے میں مدارس کے اندراج کا عمل بھی سست روی کا شکار ہے — اب تک 4355 مدارس میں سے صرف 55 فیصد کا اندراج مکمل ہوا ہے۔ جب تک اندراج مکمل نہیں ہوگا، نصاب کی یکسانیت اور نگرانی ممکن نہیں۔

افغان مہاجرین اور قومی بیانیہ

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 2014 اور 2021 دونوں میں فیصلہ ہوا تھا کہ افغان شہریوں کو واپس بھیجا جائے گا، مگر اب اس پر سیاست کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “جب افغانستان میں امن قائم ہو چکا ہے تو ان شہریوں کی واپسی میں رکاوٹ ڈالنا محض سیاسی بیانیہ ہے۔”

دہشت گردی کے خلاف جنگ — قومی ذمہ داری

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشت گردی صرف فوج یا پولیس کا نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ عوام، میڈیا، سیاستدان، عدلیہ، اور سول ادارے سب کو اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

انہوں نے واضح کیا کہ “افواجِ پاکستان اپنی قربانیوں کے ذریعے وطن کا دفاع کر رہی ہیں، مگر اگر سیاسی و عدالتی نظام ساتھ نہ دے تو دہشت گردی مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتی۔”

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس کے اختتام پر کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ عزم، یکجہتی اور عمل سے جیتی جائے گی۔ افواجِ پاکستان خیبرپختونخوا کے عوام کے ساتھ کھڑی ہیں اور یہ جنگ تب تک جاری رہے گی جب تک پاکستان سے آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں