امن معاہدے کے باوجود اسرائیلی فوج کی غزہ پر بمباری، جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی
امن معاہدے کے باوجود اسرائیلی فوج کی غزہ پر بمباری | جنگ بندی کی خلاف ورزی
یوتھ ویژن نیوز : (نمائدہ خصوصی اور ایگزیکیٹو ایڈیٹر عمران قذافی سے) غزہ میں ایک بار پھر تباہی اور خوف کے مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں، جب کہ جنگ بندی کے امن معاہدے کے باوجود اسرائیلی فوج نے اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھتے ہوئے غزہ شہر اور خان یونس پر فائرنگ اور گولہ باری شروع کر دی۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یہ حملے اُس وقت کیے گئے جب اسرائیلی کابینہ نے باضابطہ طور پر جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری دی تھی، تاہم فوج نے اس فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے کارروائیاں جاری رکھیں۔
غیر ملکی ذرائع کے مطابق، اسرائیلی ہیلی کاپٹروں اور توپ خانے سے غزہ کے کئی علاقوں میں شدید بمباری کی گئی۔ خان یونس اور بیت حانون کے اطراف دھماکوں کی آوازوں نے خوف و ہراس پھیلا دیا۔ اسرائیلی فوج نے اس حملے کا جواز یہ دیا کہ اسنائپر فائرنگ میں ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہوا، تاہم مبصرین کے مطابق یہ جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی ہے جس سے امن معاہدے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
اسرائیلی فوج کی غزہ پر بمباری
دوسری جانب فلسطینی شہریوں کو اب بھی سرحدی علاقوں میں واپس نہ جانے کی ہدایت کی گئی ہے کیونکہ غزہ شہر میں خطرہ برقرار ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق اسرائیلی فوج کی کارروائیوں سے رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ کئی علاقوں میں بجلی اور مواصلات کا نظام مکمل طور پر منقطع ہوچکا ہے۔
اسی دوران امریکہ نے بھی اس بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جنگ بندی معاہدے کی نگرانی کے لیے ایک بین الاقوامی فورس تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق 200 اہلکاروں پر مشتمل یہ فورس مصر، قطر، ترکی اور ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات کے فوجیوں پر مشتمل ہوگی۔ اس فورس کا بنیادی مقصد جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنانا، ممکنہ خلاف ورزیوں کی نگرانی اور سرحدی دراندازیوں کی روک تھام ہوگا۔
امریکی سینئر عہدے دار کے مطابق فورس کی تعیناتی کا مقام تاحال واضح نہیں کیا گیا، تاہم واضح کیا گیا ہے کہ امریکی فوجی غزہ میں داخل نہیں ہوں گے۔ اس کے بجائے، امریکہ اسرائیل میں ایک سول ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر قائم کرے گا جو اس فورس کے ساتھ رابطے اور ہم آہنگی کا مرکز ہوگا۔ اس سینٹر کا مقصد انسانی امداد کی ترسیل میں معاونت فراہم کرنا اور سکیورٹی تعاون کو منظم بنانا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فورس امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل بریڈ کوپر کی زیر قیادت بنائی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر اسرائیل جنگ بندی کی خلاف ورزی جاری رکھتا ہے تو اس فورس کی مؤثریت اور عالمی اعتماد دونوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کے باوجود اسرائیلی جارحیت خطے میں ایک بار پھر کشیدگی کو ہوا دے سکتی ہے۔ اس صورتحال سے نہ صرف انسانی بحران مزید گہرا ہوگا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کی کوششوں کو بھی شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ بین الاقوامی برادری کی جانب سے اسرائیل کے رویے پر تنقید بڑھ رہی ہے، تاہم اب تک کوئی مؤثر عالمی اقدام سامنے نہیں آیا۔
فلسطینی عوام ایک بار پھر غیر یقینی حالات کا سامنا کر رہے ہیں، جبکہ عالمی طاقتیں سفارتی بیانات سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں دکھائی دے رہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ امن معاہدہ محض ایک رسمی کارروائی تھا یا واقعی خطے میں امن کے قیام کی کوئی حقیقی کوشش؟ وقت ہی بتائے گا کہ جنگ بندی کے وعدے پر عمل ہوتا ہے یا ایک اور المیہ جنم لیتا ہے۔