"اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف کا دوہرا معیار”

مختلف اداروں کے سربراہوں، حکمرانوں اور سیاست دانوں کے لئے قانون میں نرمی، سہولیات کی فراہمی اور پروٹوکول۔۔۔
یہاں تک کہ!
‘جرم تک ثابت ہو جانے کے بعد بھی فراہم کی جانے والی مختلف مراعات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
وہ کیسز جو غریب اور مظلوم طبقہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اعلی عدالتی نظام کے تحت دفتری اوقات میں بھی اپنا مال، دولت، صحت اور زندگیاں تک گنوا دینے کے باوجود حل نہیں کرواپاتا۔
وہی کیسز اعلی اشرفیاں، مختلف محکموں کے سربراہان، حکمران، سیاست دان اور بڑے بڑے اعلی افسران عدالتی دفتری اوقات ختم ہونے کے باوجود بھی حل کروا لیتے ہیں۔

اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انسانی معاشرے کی بد قسمتی کہیئے یا الاشرفیہ کے خوش قسمتی۔
مگر!
یہ ہی نظام نسل در نسل چلتا چلا آ رہا ہے۔
اور
‘معاشرے کا سب سے غریب اور مظلوم طبقہ اس کا شکار دکھائی دیتا ہے۔
کچھ کیس خوش قسمتی سے یا خوف خدا رکھنے والے ایماندار ججوں کی بدولت نمٹا بھی دیئے جاتے ہیں۔
تو!
ان میں قانونی نظام اس قدر سسکتے ہوئے عمل درآمد کرتا ہے کہ:
‘مظلوم مظلوم ہی نظر آتا ہے اور ظالم ظالم۔۔۔

‘دفتری اوقات کے بعد کتنے ہائی پروفائل کیسز سنےگئے؟
(تفصیلات سامنے آگئیں)

دستاویزات کے مطابق:
‘ارجنٹ کیسز کی دفتری اوقات کے بعد سماعت کے لیے 2019 اور 2022 میں نوٹیفکیشن جاری ہوئے۔

عدالتی ذرائع کے مطابق:
سال 2018 سے اب تک 759 کیس دفتری اوقات کے علاوہ سنے گئے۔
‘سال 2018 میں 137 کیس۔
‘سال 2019 میں 139۔
جبکہ!
2020 میں 138کیس سنے گئے۔
‘سال 2021 میں 180 مقدمات۔
جبکہ!
‘2022 میں 165 کیسز کی سماعت دفتری اوقات کے بعد کی گئی۔
ماضی میں نواز شریف اور عمران خان سمیت دیگر سیاسی کیس بھی دفتری اوقات کے بعد سنے گئے۔
اس کے علاوہ جھگی والوں سمیت دیگر عام سائلین کے کیسز کی سماعت بھی دفتری اوقات کے علاوہ ہوئی۔
‘نواز شریف کیس کی ہفتے کے روز سماعت پر ایک سیاسی جماعت اور مخصوص صحافیوں نے تنقید کی تھی۔
جبکہ!
‘عمران خان نے تاخیر سے عدالت کھلنے پر بھی جلسوں میں اعتراض اٹھایا تھا۔
‘پی ٹی آئی رہنماؤں کے لیے عید کی چھٹی کے روز عدالت کھولی گئی، عمران خان کو جج دھمکی کیس میں اتوار کے روز حفاظتی ضمانت دی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں